بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونا قرض میں دینے کا طے کرکے سونے کو فروخت کرکے اس کی قیمت مقروض تک پہنچانا


سوال

 زید نے بکر سے ایک سال کے لیے دو لاکھ روپیہ قرض مانگا۔ بکر نے کہا میرے پاس دو لاکھ روپیہ تو نہیں ہے، لیکن میرے پاس لڑکی کی شادی کے لیے اسی (80) گرام سونا ہے جس کی قیمت فی الحال (یعنی آج سے ایک سال پہلے) دو لاکھ روپیہ ہے، اگر تم چاہو تو وہ سونا میں تم کو دے سکتا ہوں۔ زید نے کہا ٹھیک ہے سونا ہی دے دو۔ اب ہوا یہ کہ زید رہتا ہے کولکاتا اور بکر رہتا ہے بنگلور ۔ بنگلور سے کولکاتا سونا بھیجنا مشکل ہے؛ اس لیے بکر نے زیدکو دو لاکھ روپیہ بھیج دیا۔ سوال یہ ہے کہ اب زید بکر کو دو لاکھ روپیہ دے یا اسی گرام سونا دے گا؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  بکر نے زید کو 80  گرام سونا قرض میں دینے کا کہا تھا اور زید نے بھی کہا تھا کہ مجھے سونا قرض میں دے دو، میں آپ کو یہ واپس لوٹادوں گا،  لیکن چوں کہ  سونا پہنچانا مشکل  تھا تو زید کے کہنے پر بکر نے اس سونے کو فروخت کرکے  اس کی قیمت زید کو بھیج دی تو اس صورت میں یہ  80 گرام سونا ہی قرض ہے، اور  سونے کو فروخت کرنے میں بکر ، زید کا وکیل تھا، اس لیے  قرض کی واپسی کے وقت  80 گرام سونا یا اس کی قیمت واپس کی جائے گی۔

لیکن اگر  بکر نے  زید کے کہے بغیر اپنے طور پر اس سونے کو فروخت کردیا اور پھر اس کی قیمت زید کو بھجوائی تو اس صورت میں قرض سونا نہیں ہوگا، بلکہ دو لاکھ روپے ہی ہوں گے اور اور زید  پر دو لاکھ روپے واپس کرنا لازم ہوں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 694):

"(وملك) بالقبول (بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له) ولو بغصب أو أمانة؛ لأنه حينئذٍ عامل لنفسه، والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه.
(قوله: ولو بغصب) انظر الزيلعي (قوله: عن الآخر) كما إذا كان عنده وديعة فأعارها صاحبها له فإن كلاً منهما قبض أمانة، فناب أحدهما عن الآخر، (قوله: عن الأدنى) فناب قبض المغصوب والمبيع فاسداً عن قبض المبيع الصحيح، ولاينوب قبض الأمانة عنه، منح (قوله: لا عكسه) فقبض الوديعة مع قبض الهبة يتجانسان؛ لأنهما قبض أمانة ومع قبض الشراء يتغايران؛ لأنه قبض ضمان، فلاينوب الأول عنه، كما في المحيط، ومثله في شرح الطحاوي".

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279):

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144112201668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں