اگر کسی عورت کو شادی کیے ہوئے سترہ سال کا عرصہ بیت چکا ہو ، اور اس کو مہر میں ، تین تولہ سونا،بتیس تولہ کے قریب چاندی ملی ہوئی تھی، لیکن ان سب سالوں میں اس نے کبھی بھی اس کی زکوۃ ادا نہیں کی، اور اب ادا کرنا چاہتی ہے تو کس حساب سے ادا کرے گی، آیا ان گزشتہ سالوں کے سونے اور چاندی کے ریٹ کے حساب سے یا دور حاضر کے ریٹ سے، ساتھ یہ بھی بتائیں کہ وہ کتنی زکوٰۃ ادا کرے گی اور کس طرح ادا کرے گی؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت پرگزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرناواجب ہے، اورگزشتہ زمانے کی زکوۃ ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ سونااورچاندی کی موجودہ قیمت لگا کر ہر سال اس کا چالیسواں حصہ نکالا جائے، اگلے سال زکوۃ ادا کرنے کے لیے اس سونےاورچاندی کی قیمت میں سے پہلے سال کی زکوۃ منہا کرکے چالیسواں حصہ نکالا جائے، تیسرے سال کی زکوۃ ادا کرنے کے لیے سونےاورچاندی کی قیمت میں سے پہلے دوسالوں کی زکوۃ نکال کر چالیسواں حصہ نکالا جائے، اس طرح تمام سترہ سالوں کی زکوۃ ادا کی جائے۔اور اگر زکاۃ منہا کرتے کرتے سونااورچاندی کی مقدار نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت )سے کم رہ جائے تو اس کے بعد زکاۃ ساقط ہوجائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"( و ) يضم ( الذهب إلى الفضة ) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة) وقالا بالإجزا."
(ردالمحتار علی الدر المختار ، كتاب الزكاة، باب زكاة المال ۲/ ۳٠۳ ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرون مثقال ذهب فلم يؤد زكوته سنتين يزكي السنة الأولى و كذا هكذا في مال التجارة و كذا في السوائم·"
(بدائع الصنائع، كتاب الزكوة ۲/ ۷ ط: سعيد)
وفیہ ایضا:
"وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا."
(بدائع الصنائع، كتاب الزكوة ، فصل اموال التجارة ۲ /۲۲ ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406101004
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن