بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونا نصاب سے کم ہو لیکن اس کی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر ہو تو کیا اس میں زکات واجب ہوگی؟


سوال

1.میری بڑی بیٹی کی ملکیت میں 13 گرام سونا ہے، ابھی سونا ایک گرام /18930 روپے ہے اور 13 گرام کی مالیت /246090روپے ہے تو کیا اس پر زکات اور قربانی واجب ہے؟ اس کے علاوہ ضرورت سے زائد کچھ بھی نہیں ہے، نہ چاندی نہ سامان تجارت نہ نقدی۔

2.میری چھوٹی بیٹی کی ملکیت میں /8.5 گرام سونا ہے، ابھی سونا ایک گرام /18930 روپے ہے اور /8.5 گرام کی مالیت /160905 روپے ہے تو کیا اس پر بھی زکات اور قربانی واجب ہے، اس کے پاس بھی مذکورہ بالا تینوں چیزیں نہیں ہیں۔

3.ابھی چاندی /227 روپے گرام ہے، /52.5  تولہ چاندی کی مالیت /139005.72 روپے ہے، تو کیا اگر /52.5 تولہ چاندی کی مالیت کا سونا یا نقد رقم ہو تو اس پر زکات اور قربانی واجب ہے؟

جواب

1.آپ کی بیٹی کی ملکیت میں اگر صرف 13 گرام سونا ہے، اس کے علاوہ  اموال زکات (چاندی، سامان تجارت، نقدی وغیرہ) میں سے کچھ نہیں ہے، تو اس  پر زکات واجب نہیں ہے، کیونکہ سونےکی یہ مقدار نصاب سے کم ہے، جبکہ زکات واجب ہونے کے لیے نصاب کا پورا ہونا اور اس پر سال کا گزرنا شرط ہے، سونے میں زکات واجب ہونے کا نصاب  /87.48 گرام سونا ہے، اسی طرح عيدالاضحی كے تينوں دنوں ميں اس كی ملكيت ميں اگر صرف 13 گرام سونا ہوگا اور اس کے علاوہ ضرورت سے زائد مال   میں سے کچھ نہیں ہوگا تو اس پر قربانی بھی واجب نہیں ہوگی۔

2.آپ کی اس دوسری بیٹی پر بھی زکات اور قربانی واجب نہیں ہے، جیساکہ پہلی شق کے جواب سے واضح ہوچکا، نیز زکات واجب ہونے کی ایک شرط نصاب کے مالک کا بالغ ہونا بھی ہے۔

3.اگر کسی کے پاس /52.5 تولہ چاندی کی مالیت کا صرف سونا ہو ، اس کے علاوہ چاندی ، نقدی اور سامان تجارت کچھ نہ ہو تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی، کیونکہ سونے کا اپنا نصاب ہے جس کا پورا ہونا ضروری ہے، اگرچہ نصاب سے کم ملکیت میں موجود سونے کی مالیت /52.5 تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو تب بھی اس میں زکات واجب نہیں ہوگی۔   

اور اگر ملکیت میں موجود ضرورت سے زائد نقدی /52.5 تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو سال گزرنے پر اس میں زکات واجب ہوگی، کیونکہ سونے چاندی کے علاوہ اموال زکات میں زکات  کے واجب ہونے کے لیے وہ نصاب معیار ہے جو انفع للفقراء ہو،  یعنی جس میں فقراء کافائدہ زیادہ ہو، چونکہ نقدی میں زکات واجب ہونے کے لیے چاندی کے نصاب کو معیار بنانے میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہے، اس لیے ملکیت میں موجود ضرورت سے زائد نقدی /52.5 تولہ چاندی کی مالیت کے برابریا اس سے زائد ہوگی تو اس میں زکات واجب ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة .... ولو ضم أحد النصابين إلى الأخرى حتى يؤدي كله من الذهب أو من الفضة لا بأس به لكن يجب أن يكون التقويم بما هو ‌أنفع ‌للفقراء قدرا ورواجا، وإلا فيؤدي من كل واحد ربع عشره كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة، 1/ 178، 179، ط: رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507100895

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں