بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سولر پینل دے کر مزارعت میں شریک کرنا


سوال

ہمارے وزیرستان میں آج کل زمینداروں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ایک آدمی زمین دار کو شمسی (سولر پینل)خرید کر دیتا ہے جس سے زمیندار زمین سیراب کرتاہےاور باقی بیج ٹریکٹر اور کام کاج زمیندار یعنی رب الارض کے ذمہ ہوتا ہے۔ جو آدمی  سولر دیتا ہے، اس کا تہائی یا نصف حصہ مزارعت کے طور پر ہوتا ہے ۔ اور جب  سولر کا مالک اور زمیندار معاملہ ختم کرتاہے، توشمسی سولر کا ملک اپنا سولر واپس لے لیتا ہے۔

یا ان کا بتداءً آپس میں یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ جب ہم معاملہ ختم کریں گے تو زمیندار  سولر پینل کے مالک کو  سولر کے قمیت خرید دے گا۔کیا مزارعت کی یہ صورت جائزہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں کوئی شخص محض شمسی(سولر پینل) فراہم کر کے عقد مزارعت میں شریک نہیں بن سکتا، البتہ وہ اپناسولر پینل زمیندارکو کرایہ پر دے سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ایک متعین کرایہ طے کیا جائے۔پیداوار کا  آدھا یا کچھ حصہ چونکہ عقد کے وقت معلوم و متعین نہیں ہوتا، لہٰذا اس کو کرایہ کے طور پر مقرر کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔اور اگر کسی نے ایسا معاملہ(مزارعت یا اجارہ کا) کیا ہو تو اس کا یہ معاملہ شرعاً فاسد ہے اور اس پر لازم ہے کہ اس معاملہ کو فوراً ختم کرے اور اس میں سولر پینل فراہم کرنے والے کو اجرت مثل(ایسے سولر پینل کا اس علاقے میں اتنی مدت کے لیے جو کرایہ بنتاہو) ملے گی۔

 دوسری صورت میں اگر معاملہ اس طرح ہو کہ زمیندار سولر پینل والے سے پینل  ادھار پر خرید کر اس کا مالک بن جائے، اور  اس کی قیمت ادا کرنے کی مدت اپنی فصل  پکنے کے وقت تک متعین کر لیتا ہے تو یہ صورت تو جائز ہوگی، اور اس صورت میں سولر پینل والے کو صرف اس کے سولر پینل کی قیمت ملے گی، فصل کے نفع میں سے حصہ لینا اس کے لیے ہر گز جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس صورت میں فصل یا نفع میں سے  اپنے لیے حصہ مقرر کرنا  یالیناسود ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا۔

امام محمدؒ سے منقول ہے:

"ولو كان الأرض والبقر من واحد والبذر والعمل من واحد، على أن ما أخرجت الأرض فهو بينهما نصفان، كانت هذة مزارعة فاسدة، لأن صاحب البذر ‌استأجر ‌البقر والأرض بنصف ما يخرج من الزرع من الأرض، والزرع كله لصاحب البذر، ولصاحب الأرض أجر مثل أرضه وأجر مثل بقره."

(«الأصل» لمحمد بن الحسن،‌‌كتاب المزارعة، ‌‌باب المزارعة والمعاملة يشترط أحدهما فيها على صاحبه عمل عبده أو بقره، 10/ 17، الناشر: دار ابن حزم، بيروت)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"ولو اشترطا لصاحب البقر ثلثي الخارج كانت المزارعة فاسدة؛ لأن الذي شرط لنفسه الثلث كأنه ‌استأجر ‌البقر من صاحبه بثلث الخارج من نصيبه، واستئجار البقر في المزارعة مقصودا لا يجوز."

(المبسوط للسرخسي،كتاب المزارعة، باب الأرض بين الرجلين يعملان فيها أو أحدهما، 23/ 108، الناشر: مطبعة السعادة - مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام، 5/ 166، ط. سعيد،كراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں