بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کے عوض نقدی پر صلح كرنا بیع صرف ہے


سوال

میں نے خالد کو تین سال پہلے 3.50 تولہ سونا دیا تھا ، کہ وہ مجھے اس کا زیور بنا کر دیں گے یا پھر اس کو بیچ کر  رقم دیں گے،خالد کا سونے کا کاروبار تھا، خالد  صاحب  سونا لینے میرے گھر آئے تھے اور اس پر میری بیوی اور بچے گواہ ہیں،پھر خالد نے انکار کردیا کہ میں نے آپ سے سونا نہیں لیا،خالد نے دوسرے لوگوں سے بھی  فراڈ کیا ہے، اور ان لوگوں کی وائس بھی میرے پاس  موجود ہے، ہمارے درمیان کچھ دن قبل ایک  جرگہ ہوا، جس میں  چند باعزت لوگ موجود تھے، میں نے اپنا یہ دعوی رکھا کہ خالد نے فلاں وقت مجھ سے اتنا اتنا سونا لیا ہے،اور اب وہ انکار کرہا ہے، مجھ سے مطالبہ ہوا کہ کیا آپ کے پاس گواہ موجود ہیں؟ میں نے کہا : جی ہاں میں ابھی گھر فون ملاتا ہوں ، میری بیوی کو بھی اس بات کا علم ہے، اور میرے بچے بھی اس پر گواہ ہیں کہ خالد نے مجھ سے سونا لیا ہے، خالد نے کہا کہ میں مسجد جاکر قرآن اٹھا کر قسم کھاتا ہوں کہ میں نے سونا نہیں لیا، میں نے کہا کہ تمہار ی قسم کا کو ئی اعتبار نہیں، تم نے اور بھی بہت لوگوں سے فراڈ کیا ہے، اگر تم ایک قسم کھاتے ہو تو میں دو قسم کھانے کو تیار ہوں ، تو کیا تم میرا سونا دو گے؟ وہاں موجود لوگوں نے بھی کہا کہ اسلم کو ہم نے کبھی کسی سے ناجائز مطالبہ کرتے نہیں دیکھا، بالآخر خالد نے خود کہا کہ : میں سونا تو نہیں دوں گا،اس کے عوض مجھ سے 6 لاکھ کے چیک لے لو، اور میں تین مہینے میں یہ چیک تمہیں دوں گا، میں نے کہا:تین مہینے کم ہیں، تمہیں   سال تک کی مہلت ہے، ایک سال  تک یہ رقم پوری کردو۔

لیکن پھر  خالد نے مختلف بہانے کر کے چیک دینے سے بھی انکار کردیا، اب  خالد چیک دینے سے بھی انکار کر رہا ہے اور اس بات سے بھی انکار کر رہا ہے کہ میں نے سونا لیا تھا، شریعت کی روشنی میں ہماری راہ نما ئی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر خالد نےمجلس میں یہ کہا تھاکہ:" میں سونا تو نہیں دوں گا،اس کے عوض مجھ سے 6 لاکھ کے چیک لے لو، " تو یہ خالد کی طرف سے اس بات کا اقرار تھا کہ اس نے سونا لیا ہے، پھر خالد نے سونے  کے عوض 6 لاکھ  روپےدینے كي پیش کش كی، اور اسلم نے اُسے قبول کرلیا، شرعی لحاظ سے یہ صلح تھی،یعنی اسلم نے اپنے سونے کے عوض 6 لاکھ روپے پر صلح کرلی، نیز یہ صلح فقہی حیثیت سے بیع صرف کے حکم میں تھی، کہ ایک طرف سونا تھا اور دوسری طرف نقد رقم،گویا اسلم نے اپنا سونا 6 لاکھ عوض خالد کے ہاتھ فروخت کیا، اور بیع صرف میں مجلسِ عقد میں   عوضین پر قبضہ کرنا ضروری ہوتا ہے،  اگر مجلس  عقد میں قبضہ نہ کیا جائے تو بیع باطل ہوجاتی ہے،چونکہ صلح میں خالد نے اپنے ذمہ 6 لاکھ روپے قسط وار ادا کرنے کا  وعدہ  کیاتھا،اور اسلم نے اُسے ایک سال تک مزید مہلت  دی تھی،غرض یہ کہ مجلس میں 6 لاکھ پر قبضہ نہ ہوا، جس کی وجہ سے یہ صلح باطل ہوگئ، لہذا  اب خالد پر 6لاکھ روپے کی ادائیگی لازم نہیں۔

لیکن چونکہ خالد مجلس میں اس بات کا اقرار کر چکا ہے کہ اُس نے خالد سے سونا لیا ہے،جس کے عوض اُس نے 6 لاکھ روپے  دینے کا وعدہ کیا، اور خالد کے اقرار پر مجلس کے لوگ گواہ بھی ہیں، تو اب شرعی اعتبار سے اسلم  خالد پر جس سونے کا دعوی کررہا ہے، وہ دعوی ثابت ہوچکا ہے، خالد پر  وہ سونا دینا لازم ہے، خالد اگر سونا دینے سے انکار کرتا ہے تو وہ  غاصب شمار ہوگا۔   اور  سخت گناہ گار ہوگا۔

"تحفة الفقهاء" میں ہے:

"أما إذا كانت الدعوى في الأعيان القائمة والصلح عن إقرار فإن هذا ‌الصلح ‌في ‌معنى ‌البيع من الجانبين فما يجوز في البيع يجوز في الصلح وما لا فلا".

(کتاب الصلح،ج:3،ص:250، ط:العلمية)

"الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي" میں ہے:

"إن كان المدعى به عيناً والصلح عن إقرار: فإن هذا الصلح يجوز، سواء أكان بدل الصلح عيناً أو ديناً إذا كان معلوم القدر والصفة؛لأن هذا ‌الصلح ‌في ‌معنى ‌البيع من الجانبين، فكان بدل الصلح في معنى الثمن، وهذه الأشياء تصلح ثمناً في البيوع عيناً كانت أم ديناً."

(فصل في الصلح، ج:6،ص: 4343،ط:دار الفكر)

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے: 

"والصلح عن سكوت وإنكار فداء في حق المنكر ومعاوضة في حق المدعي) ‌فبطل ‌الصلح ‌على ‌دراهم ‌بعد ‌دعوى ‌دراهم إذا تفرقا قبل القبض".

(كتاب الصلح، ج:7،ص:256،ط: دارالإسلامي)

شرح المجلہ " میں ہے:

"الصلح عن الإنكار، او السكوت هو في حق المدعي معاوضة " لأنه يزعم ان ما اخذه كان عوضا عما يدعيه( مجمع الأنهر) فبطل الصلح علي دراهم بعد دعوي دراهم إذا تفرقا قبل القبض. (تكملة)".

(كتاب الصلح والإبراء، ج:2،ص: 654، ط: رشيدية)

فقط والله تعالي اعلم


فتوی نمبر : 144507100528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں