بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سولہ (16) سال عمر کی لڑکی کا نکاح قرآن و سنت کی روشنی میں


سوال

میری بیٹی 16 سال کی ہونے والی ہے، ہم اس کی شادی کرا رہے  ہیں، لوگ قانونی طور پر نا  جائز کہہ رہے ہیں،  اسلامی طور پر کیا حکم ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ اسلام میں لڑکے یا لڑکی کے لیے شادی کی کوئی خاص عمر متعیّن و مقرّر  نہیں کی گئی ، کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکےیا لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے،  بلکہ  ولی  کو ان کی شادی کرانے کا شرعاً حق ہوتا ہے، چناں چہ  قرآن کریم میں ہے: 

"وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ"[الطلاق: 4]

ترجمہ:” تمہاری (مطلقہ) بیبیوں میں جو عورتیں (بوجہ زیادت سن کے) حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہیں اگر تم کو (ان کی عدّت کی تعیین میں) شبہ ہو تو ان کی عدّت تین مہینے ہیں اور اسی طرح جن عوتوں کو (اب تک بوجہ کم عمری کے) حیض نہیں آیا۔ “ (از بیان القرآن)

 اس آیت میں ان لڑکیوں کی عدّت طلاق تین ماہ بیان  کی  گئی  ہے، جن کو ابھی تک حیض نہیں  آیا، ظاہر ہے کہ  عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی  ہوسکتا ہے اور   جب تک  نکاح  صحیح  نہ  ہو  طلاق کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس لیے اس آیت  نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کو واضح طور پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح)  چھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی، ہاں  مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہےکہ اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے  کی اجازت  ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رُو سے صورتِ  مسئولہ  میں  لڑکی  کی  شادی سولہ سال (16)  کی عمر  میں کرانا  شرعاً جائز ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."

ترجمہ : ”أم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نکاح کیا مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور میں چھ برس کی تھی اور زفاف کیا مجھ سے (رخصتی کے وقت)میں نو برس کی تھی“

(کتاب النکاح، ص:456، ج:1، ط:قدیمی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها وهو الصحيح."

(کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں