مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ایک شخص کی دو بیویاں ہیں، جن میں سے ایک کے ذمہ زکاۃ واجب ہے، اب شوہر اسے زکاۃ کے لیے رقم دے اور وہ شوہر کی دوسری بیوی جو مستحق زکاۃ ہے، اسے وہ رقم دے دے یعنی مالک بنا دے، تو کیا اس طرح سے زکاۃ ادا ہوجائے گی؟
اگر ادا ہوجائے گی تو دوسری بیوی اس رقم کو کہاں استعمال کر سکتی ہے؟ مطلب یہ کہ کیا وہ اس رقم سے گھر کے لیے فرنیچر لے سکتی ہے؟ یا گھر کا کرایہ وغیرہ ادا کرسکتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر صاحبِ نصاب بیوی کی زکاۃ کی ادائیگی میں شوہر بایں طور معاونت کرے کہ اسے واجب الادا زکاۃ کے ادا کرنے کے لیے نقدی فراہم کرے، اور وہ اسے اپنی رضا و خوشی سے اپنی مستحق سوکن کو وہ رقم دے دے، تو اس کی زکاۃ ادا ہوجائے گی، تاہم شوہر ایسا کرنے پر بیوی کو پابند نہیں کر سکتا۔
دوسری بیوی مذکورہ رقم کی مالک بننے کےبعد وہ رقم اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کرسکتی ہے، تاہم اس کو رہائش فراہم کرنا شوہر کی شرعی ذمہ داری ہے، لہذا شوہر کرایہ ادا کرنے پر اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر اتفاقاً ایسا ہوجائے تو اس میں حرج نہیں، البتہ اس ارادے سے مذکورہ طریقے کے مطابق زکاۃ صرف کرنا کہ اس کے منافع لوٹ کر زکاۃ دینے والے کو مل جائیں کراہت سے خالی نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200579
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن