بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر متعنت کے بارے میں جماعت المسلمین کے فیصلے کا حکم


سوال

زوجہ متعنت كى خلاصى كے لیے الحيلۃ الناجزۃ ميں جو طريقہ مذكور ہے اس كے بارے ميں استفسار يہ ہے، كه چوں كہ ہمارے ملك ميں مسلمان جج شريعت كى رو سے فيصلہ نہيں كرتا ہے؛ اس لیے شرعى فيصله جماعت المسلمين ہى كے ذريعہ كرایا جاسكتا ہے، ادھر جماعت المسلمين جب متعنت شوہر كو بلاتے ہيں بسا اوقات وه حاضر نہيں ہوتا ہے ،تو ايسي موقع پر كس طرح كاروائی ہوگا؟ اس حالت ميں كيا جماعت المسلمين کے لیے قضاء على الغائب كی اجازت ہوگى؟براه كرام مفصل طريق كار ارشاد فرمائيں۔

جواب

واضح رہے کہ   تفریق کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ قاضی اسلام یا مسلمان حاکم اور غیر مسلم ملک میں ان کے نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین کے سامنے پیش کرے اور جس کے پاس پیش ہو، وہ معاملہ کی شرعی  شہادت وغیرہ کے ذریعے سے پوری تحقیق کرے، اور اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہومثلًا بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز  ہو یا باوجود وسعت کے اس کا خاوند اس کو خرچ نہیں دیتا تو اس کے خاوند سے کہا جائے کہ اپنی عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرےتو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو،  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے۔

جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

(1) شوہر پاگل یا مجنون ہو،  (2) شوہر نان و نفقہ ادا  نہ کرتا ہو، (3) شوہر نامرد ہو، (4)  شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل  لاپتہ ہو، (5) شوہر  غائب غیر مفقود ہو۔

 ان اسباب  میں سےکسی  کی موجودگی میں  اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرتی ہے اور وہ حسبِ شرائط  نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں  ہوگی ، اور اسی طرح اگر شوہر  عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر  دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،مولف: مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا  مطالعہ کریں )

لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل  جس  ملک میں ہے اگر وہ دارالاسلام ہے،توچوں کہ وہاں  مسلمان جج موجود  ہوتاہے،لہذا جماعت المسلمین کا اعتبارنہیں ہوگا،اور اگر وہ ملک دارلکفر  ہے،تو پھر جماعت المسلمین کا اعتبار ہوگا،اور اگر شوہر حاضر نہ ہو جائے،تو پھر بھی وہ تفریق کرا سکتا ہے۔

حیلۂ ناجزہ میں ہے:

"اور صورتِ تفریق یہ ہےکہ عورت اپنامقدمہ قاضی اسلام یامسلمان حاکم اوراُن کے نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین کے سامنے پیش کرے اور جس کے پاس پیش ہووہ معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ سے پوری تحقیق کرےاوراگر عورت کادعوٰی صحیح ثابت ہوکہ باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتاتو اس کے خاوندسے کہاجائے کہ اپنی عورت کے حقوق اداکرویاطلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے۔اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے توقاضی یاشرعًاجواس کے قائم مقام ہوطلاق واقع کردے اس میں کسی مدت کے انتظارومہلت کی باتفاقِ مالکیہ ضرورت نہیں۔"

(الحیلۃ الناجزۃ، ص: 72،73، ط: دارالاشاعت) 

وفیہ ایضًا:

"وہ حکام جج وغیرہ جوگورنمنٹ کی طرف سے اس قسم کے معاملات میں فیصلہ کااختیار رکھتے ہیں اگر وہ مسلمان ہوں اور شرعی قاعدہ کے موافق فیصلہ کریں تو اُن کاحکم بھی قضائے قاضی کے  قائم مقام ہوجاتاہے اور اگر مسلمان نہ ہوں تواُن کا فیصلہ کالعدم ہےحتٰی کہ اگر کئی ججوں یاممبروں  کی کمیٹی فیصلہ کرے تو اُن سب کامسلمان ہوناشرط ہے اگر ایک جج یاممبر وغیرہ بھی غیرمسلم ہو توشرعًا فیصلہ معتبر نہیں۔

(الحیلۃ الناجزۃ، ص: 171، ط: دارالاشاعت) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں