بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوہنی دھرتی ایپلیکیشن کاحکم


سوال

حکومت پاکستان کی جانب سے شروع کردہ پروگرام Sohni Dharti جائز ہے ؟ کیا sohni dharti سے فائدہ اٹھانا شرعی طور پر جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سوہنی دھرتی  اپلیکیشن کےذریعہ وہ پاکستانی جوپاکستان سےباہرموجودہیں،وہ اپنی رقم بینکنگ چینلرزیاایکسچینج کمپنیوں کےذریعہ پاکستان بھیجتےہیں،توملحوظ رہےکہ ایسی صورت میں جس بینک یاایکسچینج کمپنی کےواسطےرقم بھیجی جائے،توبینک اورایکسچینج کمپنی کی حیثیت مقروض کی ہوتی ہے،اورشرعاً مقروض سےکسی بھی قسم کااورکسی بھی عنوان سےمشروط نفع لیناددیناسودہوتاہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں اگرمذکورہ پوائنٹس بینک یاایکسچینج کمپنی کی طرف سےملتےہوں،اوروہ اسےانعام کانام دیں،مگرپھربھی یہ سودہونےکی وجہ سےناجائزہے،اوراگریہ پوائنٹس بینک یاایکسچینج کمپنی کی طرف سےنہ ملتےہوں،بلکہ حکومتِ پاکستان /حکومتِ سندھ اپنی طرف سےاداکرے،توایسی صورت میں ایسےپوائنٹس کالینادیناجائزہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأماالذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض،فصل في شراىط ركن القرض،٣٩٥/٧،ط:دارالكتب العلمية)

دررالحکام میں ہے:

"فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."

(المادۃ، 57،ج:1،ص:57،ط:المكتبة الطارق)

وفیہ ایضاً:

"(وتتم) عطف على تصح (بالقبض) قال الإمام حميد الدين ركن الهبة الإيجاب في حق الواهب؛ لأنه تبرع فيتم من جهة المتبرع أما في حق الموهوب له فلا يتم إلا بالقبول ثم لا ينفذ ملكه فيه إلا بالقبض (الكامل) الممكن في الموهوب والقبض الكامل في المنقول ما يناسبه وفي العقار ما يناسبه فقبض مفتاح الدار قبض لها والقبض الكامل فيما يحتمل القسمة بالقسمة حتى يقع القبض على الموهوب بالأصالة من غير أن يكون بتبعية قبض الكل وفيما لا يحتمل القسمة بتبعية الكل."

(كتاب الهبة،٢١٨/٢،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فیض الباری میں ہے:

"ثم اعلم أن في الفقه بابا يسمى بالتبرع، ولا يوجد متميزا عن باب الهبة، إلا أنه يذكر في ضمن المسائل، فلينقح الفرق بين البابين، لاختلاف أحكامهما، ففي «القنية»: ‌المتبرع ‌لا ‌يرجع فيما تبرع به، فباب الرجوع لا يمشي في التبرعات، بخلاف الهبة."

(كتاب الهبة،باب قبول الهبة،٥٨/٤،ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں