بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر پر واجب الادا اخراجات کا ذکر


سوال

1:میری شادی کے بعد میرے میکے کے زیورات اور مہر کے زیورات کو میرے  شوہر نے میری اجازت کے بغیر بیچ کر استعمال کردیے،اب میں اپنے شوہر سے اس  زیورات کا مطالبہ کروں گی تو پہلی قیمت کے اعتبار سے  کروں گی یا ابھی کی قیمت کے اعتبار سے؟

2:اگر شوہر پچاس ہزار روپے کماتا ہے اور جائے داد بھی ہےتو بیوی کو نفقہ کتنا  دےگا؟

3:زندگی کے تمام اخراجات (شادی بیاہ،خوشی،غمی اور اسپتال وغیرہ)کا خرچہ میرے شوہر نے میرے پیسوں سے کیا ہے اور یہ تمام اخراجات اس نے میری اجازت کے بغیر لئے  ہیں اور میں اب ان تمام اخراجات کا مطالبہ بھی کرتی ہوں،کیا وہ تمام اخراجات شوہر پر واجب الادا ہیں؟

نوٹ:یہ پیسے لیتے وقت اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہوئی تھی کہ یہ قرض ہے یا تبرع ہے۔

جواب

1:شوہر بیوی کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف نہیں کرسکتا اگر شوہر بیوی کی اجازت کے بغیر اس کے مال   میں تصرف کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا  اور اس پر اس مال کا ضمان لازم ہوگا، صورت مسئولہ میں شوہر نے بیوی کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کیا ہے  لہذا اس کو واپس کرنا شوہر پر لازم ہے اور  شوہر اگر چاہےتو وہ زیورات ہی دے دے یا اس کی  موجودہ   قیمت دے دے ۔

2:جب تک بیوی شوہر کے گھر میں ہے اس وقت   تک بیوی کے کھانے پینے،رہائش اور دیگر ضروریات  کا انتظام شوہر پر لازم ہے اور نان و نفقہ سے مقصود بھی یہی ہے کہ شوہر بیوی کی ضروریات  پوری کرے،   اور اس نان و نفقہ کی شرعاً کوئی خاص مقدار مقرر نہیں ہے،  بلکہ میاں بیوی اگردونوں مال دار  ہیں تو اسی حساب سے نفقہ دینا ہوگا، دونوں تنگ دست ہیں تو اپنی وسعت کے مطابق ادا کرنا ہوگا، اور اگر ایک مال داراور  دوسرا تنگ دست ہے تو متوسط طبقہ کے مطابق نفقہ دینا ہوگا۔ 

3:   شوہر اپنی بیوی کے نان نفقہ (بقدرِ کفایت کھانے پینے، کپڑے، اور مکان) کا انتظام کرتا ہو تو شوہر پر شرعًا بیوی کواس کے علاوہ کوئی بھی چیزدینا  لازم نہیں  ہے، البتہ  رہائش،   کپڑے اور کھانے کےعلاوہ بھی بیوی کی ضروریات ہوتی ہیں اس لیے اچھا یہی ہے  کہ شوہر اس کے علاوہ بیوی کی ضروریات بھی پوری کرے بیوی اس کو اپنے نان نفقہ کا حصہ سمجھ کر مطالبہ کرنے کی مجاز نہیں ہے،شوہر  اگر نہیں دیتا تو   شرعًا اسےملامت نہیں کیا جا سکتا،البتہ حدیث شریف میں بیوی بچوں پر خرچ کرنے کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے،   حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تم نے غلام کی آزادی کے لئے خرچ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تم نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اپنے اہل خانہ پر خرچ کیا، ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جسے تم نے اپنے اہل خانہ پر خرچ کیا۔   صورت مسئولہ میں  (شادی بیاہ، غمی، خوشی اور اسپتال وغیرہ) کاخرچہ   شوہر نے اپنی بیوی سے لے کر کیا ہے اور اسمیں  واپسی کرنے کی کوئی صراحت نہیں ہوئی ہے لہذا  یہ خرچہ  شوہر پر دینا لازم نہیں ہے البتہ اگر شوہر اپنی خوشی سے دے دے تو  یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب،مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص:200، ط: سعید)

شرح المجلہ میں ہے:

"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي و إن أخذ ولو علی ظن أنہ ملکه وجب علیه ردہ عینا إن کا ن قائما وإلا فیضمن قیمته إن کان قیمیا."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:97، ج:1، ص:51 ، ط: رشدیه) 

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌باب النفقة هي لغة: ما ينفقه الإنسان على عياله وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام"۔

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ص:572، ج:3، ط:سعید)

وفیہ ایضًا:

"قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة"۔

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ص:574، ج:3، ط:سعید)

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إذا ‌أنفق ‌الرجل على أهله يحتسبها فهو له صدقة)."

(كتاب الإيمان، باب ما جاء أن الأعمال بالنية الحسنة، ولكل امرئ ما نوى، رقم الحديث: 55، ج:1، ص: 30، ط: دار ابن كثير)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌باب النفقة هي لغة: ما ينفقه الانسان على عياله،وشرعا، (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا: هي الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالاول لمناسبة ما مر أو لانها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح."

(کتاب الطلاق، باب النفقات، ج:3، ص:572، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قَوْلُهُ تَجِبُ النَّفَقَةُ لِلزَّوْجَةِ عَلَى زَوْجِهَا وَالْكِسْوَةُ بِقَدْرِ حَالِهِمَا) أَيْ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ بِقَرِينَةِ عَطْفِ الْكِسْوَةِ وَالسُّكْنَى عَلَيْهَا وَالْأَصْلُ فِي ذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ} [الطلاق: 7] وقَوْله تَعَالَى {وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ}" [البقرة: 233]

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ج:4،ص:188، ط:دار الکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں