بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی بیماری کی وجہ سے لڑکی کا طلاق کا مطالبہ کرنا /متعدی بیماری کی شرعی حیثیت


سوال

1.متعدی بیماری کی شرعی حیثیت کیا ہے؟قران حدیث کی روشنی میں ہماری راہ نمائی فرمائیں ۔

2.ایک لڑکی کی  عمر 18 سال ہے ، اس کی شادی ایک سال پہلے ایک لڑکے سے ہوئی ، جس کی عمر 38 سال ہے، اب وہ لڑکا بیمار ہو گیاہے، جب میڈیکل کرایا تو پتہ چلا کہ وہ لڑکا ایڈز کا شکار ہے ، کیا بیوی طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے؟

جواب

1.واضح رہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کوئی مرض بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتا، بلکہ سبب کے درجے میں اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے انسان کو مرض لگتا ہے ورنہ نہیں لگتا، اسباب کے درجہ میں احتیاط کرنا توکل اور منشاءِ شریعت کے خلاف نہیں ہے،  لیکن کسی  مرض کےبارے میں  ہر حال میں دوسرے کو منتقل ہونے کا عقیدہ  رکھنا جائز نہیں ہے۔

بیماری کے متعلق جاہلانہ نظریہ اور اس کی تردید :

"لاعدوی" بیماریوں کا پھیلنا ، ایک دوسرے کو لگنا جس کو یہ کہتے ہیں کہ مرض متعدی ہے جاہلیت میں اس میں بہت  غلو تھا کہ فلاں بیماری ایسی ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی چلاجائے تو وہ بھی بیمار ہوجائے گا ، فرمایا کوئی بات نہیں ہے جوکچھ ہوتاہے اللہ کی جانب سے ہوتاہے بیماری میں قطعاً یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ایک سے اڑ کے دوسرے  کو لگ جائے اس نظریہ کا نتیجہ یہ تھا کہ جب کوئی آدمی بیمار ہوتا تو اس کے پاس کوئی نہیں جاتاتھا ، اس کی خدمت کوئی نہیں کرتاتھا کہ کہیں مجھے یہ بیماری نہ لگ جائے اس لیے اسلام نے یہ سبق دیا کہ بیماری کوئی نہیں لگاکرتی ، بیمار کی خدمت کرو ، اس کے پاس بیٹھو ، اس کی دلجوئی کرو مسلمان کا جھوٹا باعث شفا ہے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے ، اس جاہلیت جدید ہ کے اندر بھی اس نظریہ کو قبول کرلیاگیاہے کہ مرض ایک سے دوسرے کولگتاہے ، لہذا جس کو نزلہ ہو اس کا گلاس استعمال نہیں کریں گے ، جس کو نزلہ زکام ہو اس کے ساتھ بیٹھ کر نہیں کھائیں گے  اس طرح یہ نظریہ جدید  تہذیب نے بھی دیا ہے اسلام اس کا بالکل قائل نہیں ہے ۔

تعدی والا نظریہ مایوسی کی طرف لے جاتاہے :

"لاعدوی" کے اندر اس بات کی تردید کی گئی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ جب آدمی سمجھے کہ بیماری ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی تو بیمار کے پاس بیٹھنے میں ، بیمارکی خدمت کرنے میں ، بیمار کا جھوٹا کھانے پینے میں اور اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں ،آپ کسی قسم کا حرج محسوس نہیں کریں گے اس سے  بیمار کی دل جوئی ہوگی ،اس کےدل کوقوت پہنچے گی اور تعدی والا نظریہ  مریض کو مایوس کردیتاہے ،جب وہ دیکھے گا کہ دیکھو میرے بھائی ہیں قریب نہیں آتے ، میری بہن ہے قریب نہیں آتی ، میری بیوی ہے قریب نہیں آتی ،مجھ سے ڈرتی ہے کہ یہ بیماری مجھ کو نہ لگ جائے اس سے بیمار کا دل ٹوٹتا ہے جس سے وہ مرض کا مقابلہ کرنے میں کمزور ہوجاتاہے ،اس لیے اسلام نے اس نظرئیےکی تردید کی ہے۔(خطبات حکیم العصر ،9-10/ 283،ط: مکتبہ حبیبہ رشیدیہ)

         شرح النووی میں ہے :

"قال جمهور العلماء: یجب الجمع بین هذین الحدیثین وهما صحیحان، قالوا: وطریق الجمع أن حدیث: "لاعدوی" المراد به نفي ماکانت الجاهلیة تزعمه وتعتقده أن المرض والعاهة تعدی بطبعها لابفعل الله تعالی، وأما حدیث: "لایورد ممرض علی مصح" فأرشد فیه إلی مجانبة مایحصل الضرر عنده في العادة بفعل الله تعالیٰ وقدره، فنفی في الحدیث الأول العدوی بطبعها، ولم ینف حصول الضرر عند ذلك بقدر الله تعالی وفعله، و أرشد في الثاني إلی الاحتراز مما یحصل عنده الضرر بفعل الله تعالی و إرادته وقدره. فهذا الذي ذکرناه من تصحیح الحدیثین والجمع بینهما هو الصواب الذي علیه جمهور العلماء، ویتعین المصیر إلیه".

 (کتاب السلام، باب لاعدوی ولاطیرة ولاہامۃ ولاصفر ولا نوء ...، ج:2،ص:230 ، ط: قدیمی)

صحیح مسلم میں ہے : 

"عن زید بن خالد الجهني قال: صلی بنا رسول الله ﷺ صلاة الصبح بالحدیبیة في إثر سماء کانت من اللیل، فلمّا انصرف أقبل علی الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربکم؟ قالوا: الله و رسوله أعلم! قال: قال: أصبح من عبادي مؤمن بي و کافر، فأمّا من قال: مُطِرْنا بفضل الله و رحمته فذلك مؤمن بي و کافر بالکوکب، و أمّا من قال:  مُطِرْنَا بنوء کذا و کذا، فذلك کافر بي مؤمن بالکوکب".

(کتاب الإیمان، باب بیان کفر من قال: مطرنا بالنوء، ج:1،ص:59 ، ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیبیہ میں رات بارش ہونے کے بعد (صبح کی) نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف رُخِ انور کرکے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: میرے بندوں میں سے بعض صبح کے وقت مجھ پر ایمان لانے والے ہوئے اور کچھ میرے منکر، یعنی جس نے یوں کہا: ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش برسی ہے، تو یہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستارے کا منکر ہے، اور جس نے  کہا: ہم پر فلاں فلاں نچھتر (ستاروں) کی وجہ سے بارش برسی ہے، یہ میرا منکر اور ستارے پر ایمان لانے والا ہے۔

2.صوت مسئولہ میں اگر شوہر کو ایڈز کی بیماری لاحق ہے تو    بہتر یہ ہے کہ بیوی  شوہر کی بیماری کی وجہ سے   علیحدہ  نہ ہو،بلکہ اپنے بیمار  شوہر کے ساتھ رہے، اس کی خدمت کرے، بیوی کو ان شاء اللہ اس کا بڑا جر ملے گا ، بیوی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ شوہر کے مرض کی وجہ سے فسخ ِنکاح كا مطالبہ کرے،لیکن   اگر عورت کا   کسی وجہ سے شوہر کے ساتھ نباہ مشکل ہے،     شوہر کے ایڈز   کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،اور اس کو اس  بات کا خوف ہے کہ  وہ اس حال میں شوہر کے حقوق اور اَحکامِ خداوندی  پورے نہیں کر سکے گی تو وہ  شوہر سے طلاق  کا مطالبہ کرسکتی ہے، اگر شوہر طلاق دینے پر راضی  نہ ہو تو شوہر کو  اپنا حق مہر واپس کرکے یا کچھ مال بطورِ فدیہ کے دے کر شوہرکو  خلع  پر راضی کر کے خلع  حاصل کرسکتی ہے ، لیکن اس صورت میں بھی خلع  شرعاً معتبر ہونے کے لیے شوہر کی رضامندی  ضروری ہے، شوہر کی رضامندی کے بغیر شرعاً خلع معتبر نہیں ہوتا۔ 

فتاوی شامی میں ہے : 

"ولا یتخیر أحدهما أی الزوجین بعیب الآخر فاحشاً، کجنون، وجذام، وبرص، ورتق، وقرن."

( کتاب الطلاق  ، باب العنین ،ج:1 ،ص:501، ط:سعيد)

 ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"(فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیمَا ٱفْتَدَتْ بِه)."(سورة البقرة ، 229)

 ترجمہ :"سواگرتم لوگوں کو(یعنی میاں بیوی کو) یہ احتمال ہوکہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کوقائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ اس (مال لینے دینے میں ) جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔"(بیان القرآن،سورۃ البقرۃ،  1 /133،ط: میرمحمدکتب خانہ )

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

  (کتاب الطلاق،باب الخلع، ج: 3، ص: 441، ط: سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضًا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي."

(كتاب الطلاق ، باب الخلع، ج: 6، ص: 171، ط: دار المعرفہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں