میری بیٹی کی شادی چار ماہ قبل ہوئی تھی، لیکن دو ماہ بعد میری بیٹی کو اندازہ ہوا کہ وہ اس رشتہ کو نہیں نبھا سکتی، غلطی دونوں جانب سے ہوئی ہوگی، لیکن میری بیٹی اس رشتہ کو قائم نہیں رکھنا چاہتی، داماد کو جب ہم نے یہ بات بتائی تو وہ خلع کے کاغذات پر دستخط کرنے پر آمادہ ہوگیا، اس نے ہم سے کہا کہ آپ نے جو جہیز کا سامان دیا تھا وہ آپ اٹھا لیں، جو کہ اب ہم واپس لے آئے، اس نے منہ دکھائی میں جو سونے کی انگوٹھی دی تھی وہ اور چند جوڑے دیئے تھے وہ سب واپس لے لیے، اب میرا داماد میری بیٹی کو طلاق دینے اور خلع پر دستخط کرنے سے انکار کر رہا ہے، اب ہماری رہنمائی فرمائیں کہ میری بیٹی کو کس طرح اس کے شوہر سے آزادی یا طلاق مل سکتی ہے؟ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
میری بیٹی اور اس کے شوہر کی طبیعتیں بہت مختلف ہیں، مزاج بالکل نہیں ملتے، ایسی صورت میں بیٹی کیا کرے؟ حقوق کی ادائیگی میں بھی کوتاہی کرتا رہتا ہے اور خلع دینے پر بھی راضی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے حسن اخلاق سے نبھایا جائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے ،ضابطہ کی روسے جہاں بہت ساری ذمہ داریاں بیوی پر عائد نہیں ہوتیں وہیں شوہر بھی بہت سے معاملات میں بری الذمہ ہوجاتا ہے ، لیکن دوسری طرف حسنِ معاشرت کا تقاضا اور بیوی کی سعادت ونیک بختی اس میں ہے کہ وہ شوہر اور اس کے والدین کی خدمت بجالائے نیزاگر کبھی شوہر کسی خدمت کا حکم دے تو اس صورت میں بیوی پر اس کی تعمیل واجب ہوجاتی ہے ، شوہرکی خدمت ،تابعداری اوراطاعت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمارارشادات موجودہیں،چناں چہ ایک حدیث میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".
(مشکاۃ المصابیح، ج:2، ص:281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمي)
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اگرمیں کسی کویہ حکم کرتاکہ وہ کسی (غیراللہ)کوسجدہ کرے تومیں یقیناًعورت کوحکم کرتاکہ وہ اپنے خاوندکرسجدہ کرے۔"
صاحبِ مظاہرحق اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:
''مطلب یہ ہے کہ رب معبودکے علاوہ اورکسی کوسجدہ کرنادرست نہیں ہے اگرکسی غیراللہ کوسجدہ کرنادرست ہوتاتومیں عورت کوحکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندکوسجدہ کرے،کیوں کہ بیوی پراس کے خاوندکے بہت زیادہ حقوق ہیں،جن کی ادائیگی کرنے سے وہ عاجزہے،گویااس ارشادگرامی میں اس بات کی اہمیت وتاکیدکوبیان کیاگیاہے کہ بیوی پراپنے شوہرکی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہے۔"
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں بہترین شخص وہ ہے جواپنے اہل(بیوی،بچوں،اقرباء اورخدمت گاروں)کے حق میں بہترین ہو،اورمیں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔"
اسی طرح شادی کے بعد میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے، ا س کے بغیر پرسکون زندگی کاحصول محال ہے، شریعتِ مطہرہ میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے بہت تاکید کی گئی ہے، اس بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
شوہر کے حقوق:
جو عورت شوہر کی نافرمانی کرے احادیثِ مبارکہ میں ایسی عورت سے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں، اور جو عورت شوہر کی فرماں برداری اور اطاعت کرے اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے
حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح".
(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:280، ط: قدیمي)
ترجمہ: ’’رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے تو فرشتہ اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
(مظاہر حق، ج:3، ص:358، ط: دارالاشاعت)
خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے، اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے، اور شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے، اس کی قدر اور اس سے محبت کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائےتو چشم پوشی سے کام لے، صبروتحمل اور دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔
ان سب کے باوجود بھی اگر شادی کے بعد بھی میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیدا ہوجائیں تو دونوں کو چاہیے کہ باہمی رضامندی اور صلح صفائی کے ساتھ آپس کے اختلافات کو ختم کرکے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گذاریں،اگر دونوں کے درمیان بات نہ بنے تو دونوں کے خاندان کے بڑوں کو چاہیے کہ دونوں کے درمیان صلح صفائی کرائیں،اس کے باوجودبھی اگر دونوں کے درمیان نبھاؤ کی کوئی صورت نہ بنتی ہو اور میان بیوی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ہوں، اور میاں بیوی کو طلاق بھی نہیں دے رہا ہو تو بیوی کو چاہیے کہ شوہر کو طلاق کے لیے راضی کرے، اگر وہ اس پر راضی ہو جائے تو بہتر ، ورنہ حق مہر کی واپسی یا معافی کے عوض شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے، اس کے علاوہ سوال میں ذکر کردہ وجوہات کی بناء پر خلاصی کی کوئی صورت نہیں بنتی ہے۔
نیز اگر شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو، جس پر بیوی نکاح سے خلاصی کے لیے عدالت سے رجوع کرے، اپنے دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت میں ثابت کرے، پھر عدالت تنسیخ ِ نکاح کا فیصلہ دے، تو عدالت کا ایسا فیصلہ معتبر ہوگا ا اور میاں بیوی میں جدائی واقع ہوجائے گی ، پس اگر عدالت نے فیصلہ دیتے وقت ان شرائط کی رعایت نہیں رکھی، تو ایسا یکطرفہ عدالتی فیصلہ کو شرعا تنسیخِ نکاح قرار نہیں دیا جائے گا۔
صورتِ مسئولہ میں چونکہ میاں بیوی کےمزاج نہیں ملتےہیں، تو بیوی کو چاہیے کہ شوہر کو طلاق کے لیے راضی کرے، اگر وہ اس پر راضی ہو جائے تو بہتر ، ورنہ حق مہر کی واپسی یا معافی کے عوض شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے ، اگر شوہر خلع دینے پربھی راضی نہ ہو اور اوپر ذکر کی گئی عدالت سے خلع کی وجوہات میں سے کوئی وجہ بھی نہ پائی جا رہی ہو تو پھر بیوی عدالت سے فسخِ نکاح نہیں کر واسکتی ہے ، اگر بیوی نے عدالت سے فسخِ نکاح کر وابھی لیا تو وہ شرعًا معتبر نہیں ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب الثالث في الخلع، ج:1، ص:488، ط:دار الفکر)
مبسو طِ سرخسی میں ہے:
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، :ص:176، :ط:دار المعرفہ بیروت)
حیلہ ناجزہ میں ہے :
"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه: إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله: وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلی أن قال: وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها. وقال ابن عبدالرحمن: لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهی وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف."
(الرواية الثالثة و العشرون، ص:150، ط: دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101909
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن