بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا دماغی توازن درست نہیں اور حقِ زوجیت بھی ادا نہیں کرتا ایسے حالت میں طلاق کا حکم


سوال

میری بیٹی کی شادی جون 2022 کو ہوئی تھی،وہ چار ماہ بعد واپس اپنے میکے میں آگئی تھی،کیو ں کہ لڑکے کا دماغی توازن درست نہیں ہے،اور میری بیٹی کی بیان کے مطابق ان چار مہینوں میں ان کا شوہر ان کے پاس نہیں گیا ہے،(ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا ہے)،اور ان کو دورے بھی آتے ہے،اور کوئی کام وغیرہ بھی نہیں کرتا(کماتا نہیں ہے)،جب کہ لڑکے کے والدین اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں،کہ لڑکا دماغ طور پر  درست نہیں ،اور انہوں نے یہ بات ہم سے چھپائی تھی،لہذا  لڑکی کے لیے شرعاً کیا حکم ہے،کیا وہ طلاق لے سکتی ہے کہ نہیں،اور کس طرح وہ خلاصی پائے گے،راہ نمائی فر مائیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ عورت کا  شدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق  کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت کسی مجبوری کے  بغیر اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوش بو حرام ہے،پھر یہ بات بھی واضح رہے کہ ازدواجی زندگی کے  پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں، دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے:  بالفرض اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، بلا کسی ضرورت کے بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی سےاپناصحیح علاج کروائے اور حق زوجیت  بھی ادا کرے،البتہ اگر  شوہر عمداً حقِ زوجیت ادا نہیں کررہا تو وہ سخت گنا ہ گار ہوگا، اسی طرح شوہر کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی  کے  کھانے پینے،رہائش   کا مناسب انتظام کرے ،اور اگرشوہر کام پرنہیں جاتا اس کے اسباب معلوم کرکے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے، اگر وہ کچھ کمائے گا نہیں تو بیوی  کا نفقہ کیسے ادا کرے گا، جب کہ بیوی  کا نفقہ شرعاً اس پر واجب ہے ، بہر حال بیوی کو چاہیے کہ شوہرکو نرمی سے سمجھائے، اگر اس کا سمجھانا اثر نہ کرے ،تو  دونوں خاندانوں کے  سمجھ دار اور دیانت دار بڑوں کوبیچ میں ڈال کرافہام وتفہیم کے ساتھ اس مسئلہ کوحل  کرانےکی کوشش کرے، اگر کوشش کے باوجود بھی مصالحت کی کوئی راہ نہ بن پائے ،اورسائل کے داماد  واقعۃً  باوجود قدرت کے   نان ونفقہ ادا نہیں کرتا ،اور نہ حقوق زوجیت ادا  کرتا ہے،اور  دماغی توازن  بھی درست نہیں ہے،اور سائل کی بیٹی کےلیے اسی حالت میں عفت وپاک دامنی کے ساتھ  رہنا مشکل ہو،  جس کی وجہ سے جدائی ناگزیرہو ،تو ایسی صورت میں سائل کی بیٹی کا  اپنے شوہرسے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے  ، تاہم اگرشوہرطلاق نہ دےتوسائل کی بیٹی اپنے مہرکے عوض شوہرکوخلع  کےلیے آمادہ کرے ،اور اگروہ طلاق اور خلع دینے پر راضی نہیں ، تو ایسی صورت میں عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کے خلاف عدم حقوق زوجیت کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کا عدالت میں مقدمہ دائر کرے پھر عدالت شرعی طریقے سے فیصلہ کرتے ہوئے تنسیخ نکاح کے ذریعے نکاح کو فسخ کردے تو یہ بھی درست ہوگا،جس کے بعد عدت گزار کر سائل کی بیٹی  کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر شوہر نان و نفقہ نہیں دیتا، حقوق بھی ادا نہیں کرتا ،اور دماغی طور پر بھی درست نہیں ہیں،تو سائل کی بیٹی اپنے شوہر سے طلاق یا خلع لے سکتی ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهٖ وَحَكَمًامِّنْ أَهْلِهَآ إِنْ يُّرِيْدَآ إِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ ٱللّٰهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيْرًا."(سورة النساء، الآیۃ،35)".

ترجمہ:"اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہومرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہو عورت کے خاندان سے بھیجو ،اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں ۔ "

(بیان القرآن:ج،1:ص:355)

         سنن أبی داود  میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق»."

(كتاب الطلاق، باب في كراهية الطلاق، ج:2، ص:255، ط: المكتبة العصرية۔ بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

''وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ .''

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:441، ط: سعید)

فتح القديرمیں ہے:

"وإن طلقها علی مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال".

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:4 ،ص:218، ط: دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں