بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر بیٹی والد والدہ میں میراث کی تقسیم


سوال

مرحومہ کی ایک بیٹی، شوہر،والد، والدہ، پانچ بھائی اور چار بہنیں ہیں اس کی میراث تقسیم کرنے کے لیے رہنمائی فرمادیں۔ اس کے استعمال کے کپڑے سب کی رضامندی سے ایصالِ ثواب کی نیت سے دے سکتے ہیں؟  اور  جو کچھ گھر میں استعمال ہو رہی ہیں چیزیں مثلاً برتن وغیرہ اُن کا کیا کیا جائے؟

جواب

صور تِ  مسئولہ میں مرحومہ کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگرمرحومہ  کے ذمہ کوئی قرض ہو  تو اسے ادا کرنے کے بعد ،مرحومہ نے جو جائز وصیت کی ہے اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقیکل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو  (13) حصوں میں تقسیم کرکے 3 حصے مرحومہ کے شوہر کو، اور 6 حصے بیٹی  کو، اور2 حصے والد کو، اور دو حصے والدہ کو  ملیں گے۔

صورتِ  تقسیم یہ ہے :

میت:12عول 13

شوہربیٹیوالدوالدہبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبہنبہنبہنبہن
3622محروم

100 روپے میں سے شوہر کو 23.07روپے،بیٹی کو 46.15روپے،والد اور والدہ میں سے ہر ایک کو 15.38روپے  ملیں گے اور مرحومہ کے تمام بھائی بہن محروم ہو ں گے ۔ 

انسان کی  وفات کے ساتھ اس کی تمام مملوکہ اشیاء یعنی سونا، چاندی، نقدی، کپڑے، چپل وغیرہ ترکہ بن جاتا ہے، لہذا مرحومہ کے کپڑے  وغیرہ بھی دیگر مالِ متروکہ کی طرح تقسیم ہوں گے۔لہذا مرحومہ کے ترکہ کے سامان کو ایصال ثواب    کی نیت  سے دینے کے لئے  دیگر بالغ ورثاء  اجازت ضروری ہے اگر بالغ ورثاء اجازت دے بھی دیں  تو بھی نابالغ بچے کا حصہ پورا دیا جائے گا، اس کی اجازت ابھی معتبر نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كونه (غير وارث) وقت الموت...

وروي في السنن مسندا إلى أبي أمامة - رضي الله تعالى عنه - قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول «إن الله أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث» وأخرجه الترمذي وابن ماجه."

(كتاب الوصايا، ج:6، ص:646، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الترکة تتعلق بها حقوق اربعة جهاز المیت ودفنه و الدین و الوصیة ."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:447، ط:مکتبه حقانیة) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144309101119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں