بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صوفیاء کا کلمہ طیبہ میں صرف الااللہ کا ذکر کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے ملک میں بعض علماء کلمہ طیبہ یعنی "لا الٰہ الا اللہ" کو آدھا پڑھتے ہوئے ذكر کرتے ہیں، یعنی صرف "الا اللہ، الا اللہ" کہتے ہیں، جو ہمارے یہاں "إلا الله کا ذکر" کے نام سے مشہور ہے، اب اس طریقۂ ذکر کی صحت اور جواز کو لے کر ہمارے ملک میں اس پر عمل کرنے والے علماء اور اس کے مخالفین دیگر علماء ہیں، دونوں کے بیچ لمبے عرصے سے بہت زیادہ بحث ہوتی چلی آر ہی ہے،آج کل بھی بہت جھگڑے ہو رہے ہیں، مخالفین اسے بدعت اور حرام کہتے ہیں، لیکن ذاکرین کے دعوی کے مطابق یہ ذکر بدعت یا من گھڑت نہیں، بلکہ مباح یا مستحب کے درجہ میں ہے۔

مخالفین جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ذکر کا یہ طریقہ نہ نبی کریم ﷺ کے دور میں پایا جاتا تھا اور نہ ہی صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین میں سے کسی سے ثابت ہے،پس یہ بدعت ہے۔ اور ویسے بھی "الا اللہ" کا معنی ناقص اور ملغیٰ معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اس کا مطلب ہے- "اللہ کے سوا"، تو الله کے سوا کیا ہے یا کیا ہوا ہے؟ اور رسول اکرم ﷺ سے بھی کلمۂ طیبہ کے پورے پڑھنے پر بہت زیادہ فضیلت ملنے کی حدیث پائی جاتی ہے، پس آدھا کلمہ اس فضیلت سے خارج ہے۔ وہ اور کہتے ہیں کہ اگر یہ طریقۂ ذکر جائز ہے تو اس کا مطلب يہ ہوا کہ "لا الہ الا اللہ" پورا ہو کر بھی کافی اور سودمند نہیں، نعوذ بالله۔ یعنی حدیث رسول ﷺ بھی سودمند نہیں۔ اس لیے دوسرا طریقہ اپنایا جارہا ہے۔

اور ذاکرین دلائل کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر "لا الہ" پہلے من (دل)میں کہے اور بعد میں "الا اللہ" منہ سے کہے یا کہتے رہے تو اس میں حرج نہیں۔ حالانکہ مخالفین اسے بدلا ہوا نیا طریقہ اور خلاف سنت اور  بدعت قرار دیتے ہیں۔

ذاکرین یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے علم نحو کے قواعد کے ذریعہ اجتہاد کرکے اس عمل کو استنباط کیا ہے، اس پر ایک حدیث سے دلیل دیتے ہیں جس میں نبی ﷺ نے فرمایا، "إلا الإذخر"۔ اور یہ آیت "ومن يغفر الذنوب إلا الله" بھی پیش کرتے ہیں۔ لیکن مخالفین ان دلائل کو غلط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح کے قیاس سے دیگر اذکار میں بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے جس پر خود ذاکرین راضی نہیں۔ تو صرف کلمۂ طیبہ پہ ہی کیوں یہ قواعد جاری کیے گئے؟ اور بعض ذاکرین کہتے ہیں کہ الا اللہ کا یہ ذکر عبادت کا ذکر نہیں، بلکہ ریاضت و مجاہدہ یا تمرین کا ذکر ہے، تو اب يہ مستحب اور مباح  ہوا۔

اب میرا سوال یہ کہ ان میں سے کن کے دلائل ٹھیک ہیں؟ کیا میں مطمئن ہو کر یہ طریقہ اپنا سکتا ہوں، يا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں ذکرکرنے کی ترغیب اور فضائل وارد ہوئے ہیں،  خاص طور پر لا الہ الا اللہ کی فضیلت بھی حدیث میں آئی ہے، اور تمام اذکار میں افضل ذکر لاالٰہ الا اللہ کو قرار دیا ہے۔

سننِ ترمذی میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : "أفضل الذكر لا إِله إِلَّا الله، وأفضل الدعاء الحمد لله".

(سنن الترمذي ، أبواب الدعوات عن رسول اللہ صلى اللہ  عليهِ وسلم، باب: ما جاءأن دعوةَالمسلم مستجابة،  رقم الحديث:3383) 

یعنی "سب سے افضل ذکر "لا الہ الا اللہ" ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے"۔

نیز صوفیاء کے ہاں لاالٰہ الا اللہ کا ذکر کرنے کے بعد توحید الہی کو مزید راسخ کرنےکے لیے بہ طور تاکید صرف الا اللہ کا ذکر کرنا بھی جائز ہے ۔ اور مشائخ کے یہاں صرف الا اللہ کے ذکر کا یہی محمل ہے۔

اسی طرح لا الہ الا اللہ چند بار کہنے کے بعد اس کلمے کو ذہن میں جمانے کی نیت سے صرف الا اللہ کو بطورِ تاکید پڑھنے میں بھی حرج نہیں، مشائخِ صوفیہ اسی غرض سے الا اللہ کا ذکر کراتے ہیں ۔ 

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا مذکورہ طریقہ کے مطابق صرف الا اللہ کا ذکر کرنا جائز ہے۔ 

امدادالفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے:

"جائز است زیرا کہ غایتش حذف مستثنٰی منہ وعامل است وآں عندا لقرینہ در کلام افصح العرب والعجم صلی اللہ علیہ وسلم مثل حذف مستثنٰی وارد است، اما حذف المستثنٰی  فما اخرج ابن ماجہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذلک لایجتنی من قربھم الا قال محمد بن الصباح کانہ یعنی الخطایا کذا فی المشکوٰۃ وقع کلامہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا ذکر المستثنٰی لکمال ظھورہ فالحقہ محمد کذا فی المرقاۃ اماحذف المستثنٰی منہ فما اخرج الشیخان عن ابن عباس فقال العباس یارسول اللہ الا الاذخر فانہ لقینھم ولبیوتھم فقال الا الا ذخر الحدیث۔ودر مبحوث فیہ  قرینہ ظاھر است گاہی قالا ہر گاہ قبل ازیں ذکر لا الٰہ الا اللہ کردہ باشد گاہی  حالا لدلاۃ حالۃ المسلم علی اعتقاد نفی الوہیۃ الغیر واللہ تعالیٰ اعلم۔"

(امدادالفتاوی، ج:5، ص:232،233، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

التکشف عن مھمات التصوف میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ:

"لفظ الا اللہ رابشدت وقوت مادم گوید۔(الا اللہ کو طاقت وقوت کے ساتھ کہتا رہے)ـ۔

حدیث:عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فی خطبۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم فتح مکۃ قولہ علیہ السلام "ولا یختلی خلاھا " فقال العباس : یا رسو ل اللہ الا الا ذخر فانہ لقینھم وبیوتھم فقال : "الا الا ذخر"(متفق علیہ)

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس خطبہ میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن پڑھا ہے آپ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ:"اس کا(یعنی حرم شریف کا) گھاس نہ کاٹاجائے"، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیایا رسول اللہ ! مگر اذخر  (یہ ایک گھاس ہے) کہ لوہاروں کے اور گھروں (کی عمارت)کے کام آتا ہے، آپ نے فرمایا کہ :" خیر مگر اذخر"(یعنی انہوں نے اس کے مستثنیٰ کرنے کے درخواست کی، آپ نے مستثنیٰ فرمادیا)۔

ف: صرف الا اللہ کے ذکر پر بعض کا یہ اعتراض ہے کہ مستثنیٰ بدونِ مستثنیٰ منہ اور عامل کے،عبارت بے معنی ہے، ایسا ذکر بے معنی نہ معتد بہ ہے نہ موجب اجر ، پس عبث ہوا پھر کیوں اختیار کیا گیا ؟سو حدیث سے جواز حذف عامل ومستثنیٰ منہ کا وقت قیام قرینہ کے معلوم ہوتا ہے، جس طرح کہ کبھی اس کا عکس بھی مستعمل ہوتاہے، یعنی صرف مستثنیٰ کو حذف کردیا جائے،چنانچہ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں صحبت حکام کی مذمت میں ارشاد ہے۔

حدیث :" کذلک لایجتنی من قربھم الا " کانه یعنی الخطایا ۔(مشکوٰۃ)

جس کی تفسیر محمدبن الصباح نے کی ہے، کانہ یعنی الخطایا سے۔

پس الا اللہ میں بھی اگر اس قرینہ سے کہ اس کے قبل لا الٰہ الااللہ کا ذکر ہوچکا ہے یا بقرینہ عقیدہ ذاکر کےمستثنیٰ منہ اور عامل محذوف کردیاتو کیا حرج ہوا۔

اور ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہےکہ اس کے قبل جو لا الٰہ الا اللہ کہا گیا ہے اس میں صرف الا اللہ کو تاکید کے لیے مکرر لایا گیا، پس اس کا عامل اور مستثنی منہ ہر بار مراد ہوگااور تاکید کے لیے جو تکرار کیا جاتا ہے کوئی دلیل اس کی تحدید پر قائم نہیں جس قدر اہتما م ہوگا اتنا تکرار مستحسن و مقتضائے مقام ہوگا چنانچہ بعض روایات میں بعض مضامین کی نسبت ہے۔

فما زال یکررھا حتی وددنا انہ سکت او نحو۔"

(ص:712،713، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں