بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صوفے اور گدے کو پاک کرنے کا طریقہ


سوال

اگر چھوٹا بچہ صوفے یا گدے پر پیشاب کر دے اور وہ جذب ہو جائے تو اس گدے کی صفائی اور پاکی کیسے ممکن ہے؟ نیز صوفے کو دھونا یا گدے کو دھونا ایک مشکل عمل ہے، اور مکمل خشک نہ ہونے کی صورت میں دیگر حشرات اور جراثیم کے پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

جواب

   جن چیزوں کو دھو کر نچوڑنا ممکن نہ ہو جیسے صوفہ اور گدا وغیرہ ،ان چیزوں میں اگر نجاست (مثلاً پیشاب) جذب ہوجائے تو ان  کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس جگہ نجاست لگی ہو اس جگہ کو تین مرتبہ دھوئیں، پہلی مرتبہ دھو کر ٹھہر جائیں یہاں تک کہ اس میں سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے، پھر دوسری مرتبہ دھو کر اتنی دیر ٹھہر جائیں کہ پانی ٹپکنا  بند ہوجائے، اسی طرح تیسری مرتبہ دھونے کے بعد جب پانی ٹپکنا بند ہوجائے تو وہ چیزیں پاک ہوجائیں گی، سوکھنے کا انتظار کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن دھونا ضروری ہے، دھوئے بغیر اگر صرف گیلے کپڑے سے پونچھ دیا جائے تو اس سے صوفہ اور گدا پاک نہیں ہوگا۔اسی طرح اگر صوفے اور گدے کو دھویا نہیں گیا اور وہ خشک ہوگیا تو وہ صوفہ اور گدا ناپاک رہے گا۔

  اگر پانی بہانا صوفے یا گدے کے لیے  نقصان دہ ہو اورکسی بھی ایسے سیال مادے یا کیمیل سے دھو لیا جائے جس سےنجاست کا ازالہ یقینی طور پر ہوجائے (جیسے ڈرائی کلینر کرتے ہیں) تو بھی صوفہ اور گدا  پاک ہوجائے گا۔

المحيط البرهاني میں ہے:

"إذا أصابت النجاسة خفاً أو نعلاً لم يكن لها جرم، كالبول والخمر فلا بد من الغسل رطباً كان أو يابساً ."

(كتاب الطهارات، الفصل السابع في النجاسات وأحكامها، 1/ 202، ط : دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة.

(قوله: أي: غير منعصر) أي: بأن تعذر عصره كالخزف أو تعسر كالبساط أفاده في شرح المنية. (قوله: مما يتشرب النجاسة إلخ) حاصله كما في البدائع أن المتنجس إما أن لا يتشرب فيه أجزاء النجاسة أصلا كالأواني المتخذة من الحجر والنحاس والخزف العتيق، أو يتشرب فيه قليلا كالبدن والخف والنعل أو يتشرب كثيرا؛ ففي الأول طهارته بزوال عين النجاسة المرئية أو بالعدد على ما مر؛ وفي الثاني كذلك؛ لأن الماء يستخرج ذلك القليل فيحكم بطهارته، وأما في الثالث فإن كان مما يمكن عصره كالثياب فطهارته بالغسل والعصر إلى زوال المرئية وفي غيرها بتثليثهما، وإن كان مما لا ينعصر كالحصير المتخذ من البردي ونحوه إن علم أنه لم يتشرب فيه بل أصاب ظاهره يطهر بإزالة العين أو بالغسل ثلاثا بلا عصر، وإن علم تشربه كالخزف الجديد والجلد المدبوغ بدهن نجس والحنطة المنتفخة بالنجس؛ فعند محمد لا يطهر أبدا، وعند أبي يوسف ينقع في الماء ثلاثا ويجفف كل مرة، والأول أقيس، والثاني أوسع اهـ وبه يفتى درر."

(كتاب الطهارة،باب الأنجاس، 1/ 332، ط :سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

" وما لاينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثراً في استخراج النجاسة. وحد التجفيف: أن يخليه حتى ينقطع التقاطر، ولايشترط فيه اليبس، هكذا في التبيين. هذا إذا تشربت النجاسة كثيراً، وإن لم تتشرب فيه أو تشربت قليلاً يطهر بالغسل ثلاثاً، هكذا في محيط السرخسي".

(كتاب الطهارة،الباب السابع في النجاسة وأحكامها،الفصل الأول في تطهير الأنجاس،1/ 42، ط : دار الفكر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144405100933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں