بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم کسی غریب کو دینے کا شرعی حکم


سوال

میں بیسوں برس سے  مطلقہ عورت ہوں، میری رہائش  جس مکان میں ہے وہ  کسی اللہ کے بندے نے  دلوایاتھا؛کیوں کہ میری مالی حیثیت بہت کمزور تھی  ، اب  اس  مکان  کی  بہت زیادہ خستہ حالت  ہے، مجھے اس کی درستگی کے لیے  رقم کی اشد ضرورت  ہے ، میرے داماد کے پاس  سود کی رقم ہے جو وہ استعمال نہیں  کرتا، اس کا کہنا کہ وہ یہ رقم  مجھے دے دے، آپ حضرات  سے اس بارے میں یہ فتویٰ درکارہے کہ  کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے، میری ضرورت بہت زیادہ ہے اس کے علاوہ کوئی  دوسراراستہ نہیں ہے۔ 

 

جواب

واضح رہے سودی رقم کا لین دین  کرنا، یا اُس کا معاہدہ وغیرہ کرنا سب ناجائز ہے، اس لیے اولاً تو سودی رقم وصول ہی نہ کی جائے، اور اگر وصول کرلی گئی ہےتو جس سے وصول کی گئی ہےاُسے واپس کردی جائے، اور اگر واپس کرنا مشکل یا ناممکن ہوتو اُس سودی رقم کو کسی غریب شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر دینا واجب ہے، اپنے استعمال میں لانا یا ثواب کی نیت سے کہیں صدقہ وغیرہ کرنا درست نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  سائلہ کے داماد کے پاس  جو سودی رقم ہے  سب سے پہلے تو اس پر لاز م ہے کہ جہاں سے وہ سودی رقم اس کو ملی    وہی اسے  واپس کردی جائے،  لیکن اگر واپس کرنا مشکل یا ناممکن ہوتو اس صورت میں وہ رقم ثواب    کی نیت کے بغیر مستحق زکاۃ کو دے کر ہاتھ صاف کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا اگر سائلہ مستحق زکاۃ ہے تو وہ سائلہ کو بغیر ثواب کی نیت کے دے سکتاہے اور  سائلہ  اسے اپنے استعمال میں لاسکتی ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 5/ 99 ط: سعید)

محدث العصر حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں