غیر اسلامی بینک سے لیے گئے قرض پر گھر میں اور اسلامی بینک سے قرض پر لیے گئے گھر میں سودی اعتبار سے کیا فرق ہے۔ کس اعتبار سے ایک جائز اور دوسرا نا جائز ہے۔?
واضح رہے کہ ملک کے اکثر جید اور مقتدر مفتیانِ کرام کی رائے یہ ہے کہ مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، اور مروجہ غیر سودی بینک اور روایتی بینک کےبہت سے معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے ، لہذا روایتی بینک یا مروجہ نام نہاد اسلامی بینکوں سے قرض پر گھر لینے کا معاملہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے( تفصیلی معلومات کے لیے ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا)۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200756
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن