بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی یا مروجہ غیر سودی بینکوں سے قرض پر گھر لینا


سوال

 غیر اسلامی بینک سے لیے گئے قرض پر گھر میں اور اسلامی بینک سے قرض پر لیے گئے گھر میں سودی اعتبار سے کیا فرق ہے۔ کس اعتبار سے ایک جائز اور دوسرا نا جائز ہے۔?

جواب

واضح رہے کہ  ملک کے اکثر جید اور مقتدر مفتیانِ کرام  کی رائے یہ ہے کہ  مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے ، لہذا روایتی بینک یا مروجہ نام نہاد اسلامی بینکوں سے قرض پر گھر لینے کا معاملہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے( تفصیلی معلومات کے لیے  ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا)۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں