بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرضہ دینے والی کمپنی میں رجسٹریشن کروانا


سوال

زاہد ایک دکان دار ہے اور چھوٹا سا کاروبار چلاتا ہے،زاہد نے ایک ایسی کمپنی میں اپنی رجسٹریشن کروائی ہے جو زاہد کے ساتھ کچھ شرائط رکھ کر قرض مہیا کرتی ہے، وہ قرض نقد روپوں کی صورت میں نہیں ،بلکہ مال کی صورت میں ہوتا ہے، زاہد اگر کسی ادارے سے مثلاً  کولڈ ڈرنکس وغیرہ خریدے گا تو زاہد کے بل کے پیسے وہ کمپنی دےگی جس میں زاہد نے رجسٹریشن کروائی ہے اور وہ کمپنی زاہد سے ماہانہ کی بنیاد پر کچھ پیسے لیتی ہے ،مثلاً اگر 10000 روپے کا آرڈر ہے تو مہینے بعد زاہد کو 10350 روپے کمپنی والوں کو دینے ہیں ،کیا زاہد کی کمائی سود کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ اور دوسرا یہ ناجائز کاروبار تو نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زاہد کا کمپنی میں اس بنیاد پر رجسٹریشن کرانا درست نہیں کہ وہ مثلاً 10000 روپے کا مال خرید کر کمپنی سے ادائیگی کراۓ اورمہینے بعد 10350 روپے اداکرے ، کیوں کہ یہ سودی معاہدہ اور معاملہ ہے ، جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے، لہذازاہد پر لازم ہے کہ اس معاہدہ کو ختم کرکے آئندہ مذکورہ کمپنی کے ذریعے ادائیگی نہ کراۓ ، البتہ کمپنی کی جانب سے اداکردہ رقم سے جو مال خریدا ہے اسے بیچ کر جو نفع حاصل کیا گیا ہے وہ حلال ہے،اور قرض کی رقم سے زائد رقم جو ادا کرے گا سود ادا کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہو گا۔

 ارشاد باری تعالی ہے :

 ﴿ أَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة:275)
ترجمہ:” اللہ  تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرارا دیا ہے ۔“
﴿ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُولِه﴾ (البقرة:278)
ترجمہ:” اگر تم سودی کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔“
﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة:276)
ترجمہ:” اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔“

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آکل الرّبا وموکله وکاتبه وشاهدیه، وقال: هم سواء." 

(كتاب البیوع، باب لعن آکل الرّبا وموکله، ج: 5 ص: 50، رقم الحدیث: 1598، ط: دارالمنھاج)

ترجمہ:”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم نے سود کھانے اور سود دینے اور سودی حسابات یا تحریر لکھنے والے اور سودی لین دین پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔“

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: كل قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة. وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به، ويأتي تمامه."

 (کتاب البیوع، فصل فی القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج: 5، ص: 166، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ويملك) المستقرض (القرض بنفس القبض عندهما) أي الإمام ومحمد.......(وكان عليه مثل ما قبض)."

(كتاب البیوع، ‌‌فصل في القرض، ج:5،ص: 165،164، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409101343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں