بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دستاویزکی اجرت اور پراجیکٹ کے حقیقی اخراجات سے زیادہ ظاہر کرنے کا حکم


سوال

مجھے ایک کمپنی سے کچھ کام کا موقع ملا ہے، کام یہ ہے کہ ایک صنعتی پراجیکٹ لگانے کے اخراجات معلوم کر نے ہیں اور اس کے دستاویزات تیار کرنے ہیں، میں وہ دستاویزات تیار کروں گا اورکمپنی کے مالک اس کے مطابق قرض رقم صنعتی یا حکومتی اداروں سے لینا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا مطالبہ مجھ سے یہ ہے کہ میں زیادہ لاگت کا پراجیکٹ دکھاؤں تاکہ ان کو زیادہ بڑا قرض مل سکے، یاد رہے یہ قرضہ سودی ہوگا،  اب مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ میں جو دستاویزات تیار کر کے دوں گا اس کی بنیاد پر سودی قرض کے معاملات طے ہوں گے، کیا میرے لیے یہ کام جائز ہے؟ نیز اگر وہ یہ قرض لیتے ہیں اور میرا پراجیکٹ منظور ہو جاتا ہے تو وہ مجھے نوکری دینے کے لیے تیار ہیں اس صورت میں کیا یہ نوکری جائز ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کےلیے  صنعتی پراجیکٹ لگانے کے اخراجات  کی  دستاویزات بناکر  اجرت لینا تو  جائز ہے اور اس میں بھی پراجیکٹ لگانے پر جو حقیقی اخراجات آئیں گے صرف اسی قدر ظاہر کرنا جائز ہے،حقیقی لاگت سے زیادہ ظاہر کرنا جائز نہیں ہے،  باقی کمپنی کا مالک اگر یہ دستاویزات دکھا کر کسی سے سودی قرضہ لیتا ہے تو اس کا گناہ کمپنی کے مالک پر ہوگا، نیز اگر سائل کو  مذکورہ کمپنی میں  نوکری مل جاتی ہے تو اس  میں نوکری کے  جائز ہونے يا نہ ہونے کا دار و مدار اس کمپنی کے کاروبار کے جائز ہونے یا نہ ہونے پر موقوف ہوگا، اگر کمپنی کا کاروبار شرعی اصولوں کے مطابق ہو تو اس میں نوکری کرنا جائز ہوگا اور اگر اس میں کوئی غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوں تواس میں نوکری کرنا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (لكل غادر لواء يوم القيامة، قال أحدهما: ينصب، وقال الآخر: يرى يوم القيامة، يعرف به)."

(كتاب الخمس، ابواب الجزية والموادعة، باب اثم الغادر، ج:3، ص:1164، ط:دار ابن كثير)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال "ما هذا يا صاحب الطعام؟ " قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال " أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ من غش فليس مني."

(كتاب الإيمان، با ب قول النبي "من غشنا فليس منا" ج:1، ص:99، ط:دار احياء)

مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 425) : الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة."

(الکتاب الثاني في الإجارات، الباب الأول في بيان الضوابط العمومية، ص:81، ط:نور محمد تجارت كتب)

شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے:

"ماحرم أخذہ حرم إعطائه، کما حرم الأخذ و الإعطاء فعلا حرم الأمر بالأخذ، إذ الحرام لایجوز فعله ولا الأمر بفعله ... ما حرم فعله حرم طلبه ... فکل شیئ لایجوز فعله، لایجوز طلب إیجادہ من الغیر، سواء کان بالقول أو بالفعل بأن یکون واسطة أو آلة لإیجادہ."

(ج:1، ص:77، المادۃ:34، ط:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں