بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرض اور بینک کے پرافٹ سے خریدی گئی جائیداد سے حصہ لینے کا حکم


سوال

والد کی جائیداد جو سودی قرض کے پیسوں سے بنی ہو اس میں سے حصہ لینا جائز ہے یا نہیں؟یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ سودی قرض سے بنی ہےیعنی سودی قرض سے یا بینک کے پرافٹ سے۔

جواب

واضح رہے کہ بینک سے سودی قرض لینا،دینا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، البتہ بینک سے سود پر قرض لے کر خریدی گئی  جائیداد  شرعًا سود نہیں ہے،لہذا اس جائیداد سے حصہ لینا اور اسے اپنے استعمال میں لانا شرعًا جائز ہے۔

اگر جائیداد بینک کے پرافٹ سے خریدی گئی ہے تو   اگر بینک سے لی گئی ( پرافٹ کی) رقم بینک کے نام خط لکھ کر واپس کرنا  ممکن ہو تو اتنی رقم  بین کو واپس کردیں، ورنہ  اتنی رقم ثواب  کی نیت کے بغیر کسی مستحقِ زکوٰۃ کو صدقہ کرکے  اس جائیداد  سے حصہ لے سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(مطلب فی من ورث مالا حراما،ج۵،ص۹۹، ط: سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سودی قرض سے بنائے ہوئے کپڑے استعمال کرنا

سوال:احقر کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے اور ہم دوبھائی اور ایک بہن ہیں اور احقر چھوٹا ہے،جائیدادِ موروثہ پر بھائی صاحب ہی کی نگرانی ہے اور ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی،احقر مدرسہ اسلامیہ فیض العلوم حیدر آباد میں ملازم ہے۔گو بھائی صاحبِ  زراعت پیشہ ہیں،لیکن حال ہی میں انہوں نے احقر کے کپڑے بنائے ہیں، ان سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ سودی قرض لے کر کپڑے بنائے ہیں،احقر کا مقصد تھا کہ اپنا حقِ جائیداد،یعنی آمدنی سے اپنا حصہ حاصل کروں،لیکن انہوں نے بغیر حساب آمدنی بتلائے کپڑے بنوادیے اور نقد ۷۵ روپے دیے،پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ سودی قرض لاکر دیے ہیں،اب احقر کو اشکال ہورہا ہے کہ ان کپڑوں اور روپیوں کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:سود لینا دینا گناہ کبیرہ ہے لیکن جو روپیہ آپ کو نقد قرض لے کر دیا ہے وہ سود نہیں ہے ،اسی طرح قرض لے کر جو کپڑا بنا کر دیا ہے وہ بھی سود نہیں ہے آپ  کے لیے جائز ہے۔"

(ج:۲۳ص:۵۵۴،باب الربوا،مکتبہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں