بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی مقروض کو زکاۃ دینا


سوال

زید اس وقت آٹھ لاکھ روپے کا مقروض ہے، جس میں سے اس نے ڈیڑھ لاکھ روپے ( 1,50,000) سود پر لے رکھا ہے سود کے عوض ہر ماہ گیارہ ہزار روپے (11,000) ادا کر رہا ہے، جبکہ زید کے پاس ایک کراںٔے کی دکان ہے جو پرنٹنگ پریس سے متعلق ہے جس کے ساز و سامان کی موجودہ قیمت ساٹھ ہزار (-/60,000) روپے ہو گی۔ اس کے علاوہ زیور اور زمین وجاںٔیداد کی شکل میں کچھ بھی نہیں ہے۔ زید اپنے والد کے مکان میں رہتا ہے جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور مستقبل میں بھی کوئی امید نہیں ہے۔ اس حالت میں کیا زید کو اس ڈیڑھ لاکھ روپے کی سودی قرض کی ادائیگی کے لیے زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یانہیں؟ جس سے و ہ سودی قرض سے بری ہو جائے۔ 

جواب

زید کا سود پر قرض لینا شرعا جائز نہیں تھا،تاہم اگر زید  کا قرض اس کے سازوسامان سے کا فی زیادہ ہے  اور وہ سید/ عباسی بھی نہیں  ہے،تو  وہ شرعا زکاۃ کا مستحق ہے،بقدر ضرورت زکوۃ لے کر اس کو  جس قرض (سودی/بلاسودی)میں چاہے  صرف کرے۔سود سے چھٹکارا دلانے کے لیے  مستحق شخص کو زکاۃ  دی جاسکتی ۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(‌ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير .

(قوله: لايملك نصابا) قيد به؛ لأن الفقر شرط في الأصناف كلها إلا العامل وابن السبيل إذا كان له في وطنه مال بمنزلة الفقير بحر، ونقل ط عن الحموي أنه يشترط أن لا يكون هاشميا (قوله: أولى منه للفقير) أي أولى من الدفع للفقير الغير المديون لزيادة احتياجه."

(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ والعشر، ج2،ص343،ط؛دار الفکر)

واضح رہے کہ یہ سوال کا جواب ہے نہ حقیقت واقعہ کی تصدیق ہے اور نہ ہی سفارش ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں