بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی معاملات درج کرنے والے اکاؤنٹینٹ کا حکم


سوال

مجھے اکاؤنٹینٹ کی جابنوکریکے حوالے سے کچھ پوچھنا ہے،اکاؤنٹینٹ کی جاب میں شامل ہوتا ہے کہ وہ تمام معاملات کو جو چاہے آمدنی سے متعلق ہوں یا اخراجات سے متعلق وہ ان سب کو جوماضی میں ہوچکے ہوتے ہیں ان کو اپنے پاس درج کرتا ہےاسی میں سود سے متعلق کچھ معاملات بھی آجاتے ہیں ۔یہ بات واضح رہے کہ وہ نہ تو سود لے رہاہوتاہے اور نہ دے رہاہوتاہے اور نہ ہی سودی معاہدہ بنارہا ہوتا ہے،وہ صرف ان سودی معاملات کو جو ماضی میں ہوچکے ہوتے ہیں ان کو اپنے پاس درج کررہاہوتاہے۔مجھے یہ پوچھنا ہے کہ ایسے سودی معاملات جو ماضی میں ہوچکے ہوں ان کواپنے پاس درج کرنے میں کیا حدیث کی رو سے حرام ہوگا؟ جس میں سودی معاہدہ لکھنے پہ لعنت آئی ہے۔یہ بات واضح رہے کہ وہ سودی معاہدے کو تیار نہیں کررہاہوتا بلکہ صرف ماضی کے سودی معاملات کو اپنے پاس درج کررہاہوتاہے۔ اسی حوالے سے فتح الباری میں علامہ ابن حجر کی ایک تحریر جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر کوئی سودی معاملے میں شریک نہیں ہے وہ نہ لے رہاہے نہ دے رہا ہےاور نہ سودی معاہدہ لکھ رہاہےاور نہ ہی گواہ ہے لیکن اگر وہ موجود ہے تو اس کو گناہ نہیں ملے گا تو اکاؤنٹینٹ بھی سودنہ لے رہاہوتا ہے نہ دے رہا ہوتا ہے اور نہ سودی معاملہ لکھ رہاہوتا ہے اور نہ ہی گواہ ہوتا ہےوہ سودی معاملے کو جو ماضی میں ہوچکا ہے اس کو اپنے پاس درج کررہا ہو تا ہے ۔فتح الباری کی تحریر یہ ہے :وهذا إنما يقع على من واطأ صاحب الربا عليه فأما من كتبه أو شهد القصة ليشهد بها على ما هي عليه ليعمل فيها بالحق فهذا جميل القصد لا يدخل في الوعيد المذكور وإنما يدخل فيه من أعان صاحب الربا بكتابته وشهادته۔

جواب

واضح رہے کہ گواہ اور کاتب خودسودی عقد نہیں کرتے اور عقد سے پیدا ہونے والی ذمہ داریاں ان پرا ٓتی ہیں ،لیکن چونکہ شریعت کو سود سے شدیدنفرت ہے ،اس لیےسودی عقد میں معاونت کرنے والے پر بھی لعنت آئی ہے ۔گواہ اورکاتب بلاشبہ معاون اور مددگار بنتے ہیں ۔حافظ ابن حجر نے بھی صراحت کی ہے کہ گنا ہ ان کو ہوگا جو سود کی خور کی موافقت کرےگا۔فتح الباری :ج:4ص:314 لیکن جوشخص اس نیت سے شاہد یا کاتب بنتا ہے کہ حق کے مطابق فیصلہ ہو ،اس کی نیت چونکہ معاونت کی نہیں اس لیے اپنی نیک نیتی کی بناء پر گناہ گارنہیں ہوگا۔ اکاؤنٹینٹ اگرچہ نہ خودسودی عقد کرتا ہے ،نہ گواہ بنتا ہے ،نہ نیا معاہدہ تیا ر کرتا ہے بلکہ پہلے سے ہوئے معاہدات کو بغرضِ ریکارڈ ، حساب اپنے پاس درج کرتا ہے ۔لیکن اس اندراج کا مقصد معاہدے ،مندرجات پر حق کے مطابق تصفیے کے لیے گواہی دینانہیں ہے بلکہ خودسودی معاہدے کو محفوظ رکھنا اور اسی کے مطابق عمل درآمد ہے اس لیے یہ اندراج بغرضِ حفاظت و عملدرآمد ہے اور سود خور کی اعانت ہے ،اس لیے فتح الباری کی رو سے یہ شخص بھی گناہ گارہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں