بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی لین دین کرنے والی عورت اور بچوں کی پرورش کا حکم


سوال

ہماری شادی کو ڈیڑھ سال ہوا ہے ، میری سات ماہ کی بچی ہے ، میری اہلیہ قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں ، اب وہ سودی معاملہ کررہی ہیں ۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا ایسی عورت کے ساتھ رہنا شرعاً درست ہے ؟

اگر جدائی کی صورت پیدا ہوجائے تو میری بچی کس کے پاس رہے گی ؟

جواب

سودی لین دین شرعاً ناجائز اور حرام ہے ، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، اس لیے سودی لین دین سے ہر مسلمان کوبچنا چاہیے۔ سائل کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو سودی معاملہ کی قباحت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مزید مشکلات  کہ اس کا انجام سوائے خسارے اور تباہی کے کچھ نہیں ہوتا، اس بارے میں حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھائے ، تاکہ وہ اس طرح کے معاملے سے باز رہے ۔تاہم سائل کے لیے مذکورہ عورت کو طلاق دینا لازم نہیں ہے ۔

اگر میاں بیوی میں  نباہ کی کوئی صورت نہ رہے اور نوبت جدائی تک پہنچ جائے تو جدائی کی صورت میں شرعاً لڑکی نوسال  کی عمر ہونے تک اور اورلڑکاسات  سال کی عمر ہونے تک والد کی پرورش میں رہے گا، اس عمر کے بعد والد کویہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کو اپنی تحویل میں لےکران تعلیم اورتربیت کرے۔

قرآن کریم میں  ارشاد ہے :

{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔ [البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:3،ص؛1219 ، ط:داراحیاءالتراث العربی)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والےپر، سود کھلانے والے پر، سودی معاملہ کے لکھنے والے پر اور سودی معاملہ میں گواہ بننے والوں پر اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب (سود کے گناہ میں )برابر ہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد  رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين ... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا."

(کتاب الطلاق ،الباب السادس عشرفی الحضانة،ج:1،ص:541، ط : رشيديه)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601101603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں