بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی معاملات والے افراد کے ساتھ سودی معاملے میں شرکت کرنا


سوال

 ہم کچھ رشتہ داروں کے درمیان  ایک بنگلہ مشترک ہے، اب کسی وجہ سے ہمارا اس گھر کو گرا کر نیا بنانے کا فیصلہ ہوا ہے؛ اس لیے گھر کی تعمیر کی رقم ہر پارٹنر سے اس کے حصے کے تناسب سے لی گئی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ نیا گھر  تمام افراد میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا،اب سب افراد سے پیسے جمع کرلینے کے بعد بہت ساپیسہ جمع ہو گیا ہے، جس کی ہمیں فوراً ضرورت نہیں ہے،کیوں کہ یہ پیسہ آہستہ آہستہ خرچ کیا جائے گا، اور باقی بہت سارا پیسہ بےکار پڑا رہے گا، اس لیے پیسوں کی حفاظت کی خاطر سب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ رقم ہاتھ میں رکھی جائے اور باقی رقم 4 ماہ تک بینک میں ایف ڈی آر ( FDR) کے طور پر رکھوادی جائے، جس سےایک مقررہ  مدت کے اختتام پر 2 لاکھ روپے کا سود ملے گا اور یہ ایف ڈی آر اکاؤنٹ میرے نام پر ہے۔میں شروع سے ہی اس کام پر ناراض ہوں ؛کیوں کہ مجھے اس سود خوری کےکاروبار میں مشغول ہونے کی کوئی خواہش نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سب نے مجھے یہ گھناؤنا اور بدترین حرام کام کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

ضروری نوٹ: مجھے چھوڑ کر میرے باقی  سب پارٹنر زرشتےدار سودخوری کےکام کو پسند کرتے ہیں  اور اس میں  مبتلا بھی ہیں، انہیں جتنا ہی سمجھاؤ  کچھ نہیں سمجھتے  اور میں بھی اس تعمیراتی معاملے میں کچھ اس طرح پھنس گیا ہوں  کہ اس سے نکل نہیں  سکتا،بلکہ  سب کے ساتھ مل کر رہنا پڑےگا؛اس لیے میں چاہتا ہوں کہ کم سے کم میرے حصےکا کوئی کام  سود ی پیسے سے نہ ہو۔

مفتی صاحب ! آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ ان حالات  میں  مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں اس معاملےسے نہیں نکل سکتا،دوسری طرف حاصل ہونے والا سودی پیسہ میرے ہاتھ  میں بھی نہیں  دیا جائےگا کہ میں سود ی رقم بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ  کرسکوں، بلکہ اسی سودی رقم کی آمیزش سے  گھر بنایا جائے گا اور میں بھی اس میں رہوں گا،اب کیا مجھے بعد میں اپنے حصے کا حساب کر کے سود کی رقم صدقہ  کرنی پڑے گی یا نہیں؟ اس گناہ  سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  سود لینا، دینا یا سودی کام  کرنے والے افراد کے ساتھ سودی کام میں شرکت  یا کسی بھی قسم کی معاونت کرنا  ناجائز اور حرام ہے،یہ سب سود میں شامل ہے،  رسول اللہﷺ نے سود کے گناہ کو (العیاذ باللہ) اپنی ماں سے زنا کرنے کے گناہ کے مترادف قرار دیا  ہے،نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازہ  اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ  اس سے متعلقہ افراد جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں، حدیث کی رو سے سودی معاملہ دنیا اور آخرت  کی تباہی و بربادی، ذلت و رسوائی اور فقر کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں،اس لیےہر شخص پر لازم ہے کہ وہ سود کے شبہ  سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد صورتِ مسئولہ میں آپ تمام شرکاء کا  بینک میں ایف ڈی آر (Fixed Deposit Receipt) فکس ڈپازٹ رسید  کے طور پر  رقم رکھوا کر سود وصول کرنا حرام ہے، اگر بینک میں رقم  رکھوانی ہی ہےتو غیر سودی اکاؤنٹس میں رکھوائی جاۓ، جیسے کرنٹ اکاؤنٹ، لاکرز وغیرہ میں اور  تمام شرکاء پر لازم ہے کہ تمام سودی معاملات   کو فوری  طور پرختم کریں اور اللہ سےتوبہ و استغفار کریں،نیزآپ کو چاہیے کہ حتی الامکان بقیہ افراد کی اصلاح کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اس معاملے سے الگ کرلیں اور اپنے اکاؤنٹ کو اس کام میں بالکل استعمال نہ ہونے دیں،اگر یہ صورت ممکن نہیں تو پھراپنے حصے کے بقدر رقم پر سود وصول نہ کریں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اپنے حصے کا سود ثواب کی نیت کے بغیر فقراء میں صدقہ کردیں۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرة :278إلى280 )

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے،  اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ (بیان القرآن )

وفیہ ایضاً:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ."(المائدة:2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن)

وفیہ ایضاً:

" {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا} ."(سورة النساء:140)

ترجمہ:"اور اس نے کتاب میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں، ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے۔ یقین رکھو کہ اللہ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے."(بیان القرآن)

تفسیر طبری میں ہے:

"وفي هذه الآية، الدلالة الواضحة على النهي عن مجالسة أهل الباطل من كل نوع من المبتدعة والفسقة، عند خوضهم في باطلهم."

(سورة النساء، 321/1، ط: دار التربية والتراث)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

( كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 1219/3، رقم الحديث: ١٥٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

شرح النووی علی المسلم میں ہے:

"وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهم من المبطلين لئلا يناله ما يعاقبون به وفيه أن من ‌كثر ‌سواد ‌قوم جرى عليه حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا."

(‌‌كتاب الفتن وأشراط الساعة، ج:18، ص:7، ط:دار إحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " «الربا سبعون جزءا أيسرها إثما أن ينكح الرجل أمه».

ــ(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الربا) أي إثمه (سبعون جزءا) أي بابا أو حوبا كما جاء بهما الرواية (أيسرها) أي أهون السبعين (إثما) وأدناها كما في رواية (أن ينكح الرجل أمه) أي يطأها وفي رواية: " «الربا ثلاثة وسبعون بابا أيسرها مثل أن ينكح الرجل أمه، وإن أربى الربا عرض الرجل المسلم» " رواه مالك عن ابن مسعود. رواية: " «الربا اثنان وسبعون بابا أدناها مثل إتيان الرجل أمه، وإن أربى الربا استطالة الرجل في عرض أخيه» " رواه والطبراني في الأوسط عن البراء. ففي الحديثين دلالة على أن وجه زيادة الربا على معصية الزنا إنما هو لتعلق حقوق العباد إذ الغالب أن الزنا لا يكون إلا برضا الزانية ولذا قدمها الله - تعالى - في قوله - تعالى - {الزانية والزاني} [النور: 2] وإلا فأي عرض يكون فوق هتك الحرمة ومرتبة القذف بالزنا دون معصية الزنا والله تعالى أعلم.

وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "«إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل»" رواها ابن ماجه، والبيهقي في شعب الإيمان وروى أحمد الأخير.

(وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الربا) أي ماله (وإن كثر) أي صورة وعاجلة (فإن عاقبته) أي آجلته وحقيقته (تصير) أي ترجع وتئول (إلى قل) بضم قاف وتشديد لام: فقر وذل. قال الطيبي - رحمه الله: القل والقلة كالذل والذلة يعني أنه ممحوق البركة."

(كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الثالث، ج:6، ص:68، ط:مكتبة إمدادية، ملتان)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة، نعم يرجوها بالعمل بأمر الشارع وكيف يرجو الثواب بمال حرام ويكفيه أن يخلص منه كفافا."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:95، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحل له و يتصدق به بنية صاحبه، و إن كان مالًا مختلطًا مجتمعًا من الحرام و لايعلم أربابه و لا شيئًا منه بعينه حل له حكمًا، و الأحسن ديانةً التنزه عنه."

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد، 99/5، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والإباحة، 385/6، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503103013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں