بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سود کی حرمت کس سن میں نازل ہوئی؟


سوال

سود کی حرمت کس سن میں نازل ہوئی؟ برائے مہربانی مطلع فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم  کا یہ دستور اور طریقہ  کار رہاہے کہ  معاشرے  کی ایسی خرابیاں  جن کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے تدریجاً احکامات نازل ہوتے ہیں ،شروع میں اس برائی  کے مفاسد ومضرات  سے آگاہ کیاجاتا ہے ، جب لوگوں کے دلوں میں مذکورہ برائی سے دوری شروع ہوجاتی ہے اورقرآنی  حکم قبول کرنے کے لئے آمادگی حاصل ہو جاتی ہے تو آخر میں قطعی اورمحکم حکم  تصریحی شکل میں بیان کر دیاجاتا ہے ،من جملہ ان معاشرتی برائیوں میں سے سود خوری کی برائی بھی ہے جو  زمانۂ جاہلیت  میں عرب میں  شدت سے رائج تھی ، بالخصوصو مکہ مکرمہ  کا گرد و نواح سود خوری کا مرکز تھا اور اکثر وبیشتر معاشرتی  قبیح  برائیوں کی  اصل   اورجڑ یہی سود خوری تھی ،اس بناء پر  قرآن مجید نے  سود کےمفاسد ، مذمت اوربرائی مختلف مقامات پر فرمائی، البتہ  حرمتِ سود کاصریح و  قطعی  حکم   سب سے آخر  میں نازل ہوا،ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  سب سے آخری آیت   حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نازل ہوئی وہ سود ( کی حرمت)  والی آیت تھی،خلاصہ یہ ہے  کہ سود کی حرمت چار مراحل میں نازل ہوئی جو درج ذیل ہے:

پہلا مرحلہ:  سب سے پہلی  آیت جو سود کے بارے میں  نازل ہوئی وہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جو   سورہ روم کی آیت نمبر 29 ہے، جس میں  ایک اخلاقی نصیحت پر زور دیا گیا  ،  وہ یہ کہ  لوگوں کی نگاہ میں سود سے  مال وثروت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں بلکہ  رب لایزال  کے ہاں زکوٰة اور راہ خدا میں خرچ کرنا مال و ثروت کی زیادتی کا باعث ہے ،چنانچہ باری تعالی کا ارشاد ہے :

"«وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ»"(الروم: 30/ 39) 

"ترجمہ:اورجو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجائے تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اورجو زکوۃ دو گے جس سے اللہ کی رضا طلب کرتے ہوگے تو ایسے لوگ نہ اللہ تعالی کے پاس بڑھاتے رہیں گے اللہ تعالی ہی وہ  ہے ۔(بیان القرآن)"

دوسرا مرحلہ: دوسرے مرحلے میں    سورہ نساء کی آیت نمبر160،161مدینہ منورہ میں  نازل ہوئیں، جس میں سود کی حرمت کی طرف اشارہ تھا اوراس  کے ساتھ ان آیات میں یہود کے جرائم کی طرف بھی  اشارہ ہے کہ  انہوں نے سود کو حلال سمجھا اور اس کے بدلہ میں وہ لوگ لعنتِ خداوندی اورغضبِ الٰہی  کے مستحق ٹھہرے،ارشاد باری تعالی ہے:

 "«فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا. وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا»"(النساء:4/  160/161)

"ترجمہ:سو یہود کے ان  ہی  بڑےبڑے جرائم کے سبب ہم نے بہت سی پاکیزہ چیزیں جو ان کے لئے حلال تھیں ان پر حرام کردیں اور بسبب اس کے کہ وہ  بہت آدمیوں کو اللہ  کی راہ سے مانع بن جاتے ہیں اور بسبب اس کے وہ سود لیا کرتےتھے،حالانکہ  ان کو اس سے ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ وہ لوگوں کے مال ناحق طریقہ سے کھاجاتےتھے اورہم نے لوگوں کے لئے جو ان  میں کافر ہیں دردناک سزا کا سامان کررکھاہے۔(بیان القرآن)

تیسرا مرحلہ: تیسرے مرحلہ میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 130 مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ، جس میں سود کی ایک خاص قسم کی حرمت کا  حکم نازل ہوا جو سود کی اقسام میں سے بد ترین قسم تھی ، جو عرب میں  بڑے پیمانے پرپائی جاتی تھی  وہ یہ  کہ قرض کو وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوتارہتا تھا، جو سود کی ایک      قبیح ترین قسم ہے  ،کیوں کہ اس میں اس مقروض کا سب کچھ داؤ پر لگ جاتا تھا،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے : 

"« يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ. وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ »"( آل عمران، 130 –132)

"ترجمہ:اے ایمان والو! سود مت کھاؤ کئی حصے زائد،اوراللہ تعالی سے ڈرو،امید ہے کہ تم کامیاب ہو اوراس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اورخوشی سے کہنا مانو اللہ تعالی کا اوررسول کا ،امید ہے کہ تم رحم کئے جاؤگے۔"( بیان القرآن)

چوتھا مرحلہ:سب سے  آخر میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر275سے279تک میں سود کا قطعی اورکلی حکم تصریحا ً نازل ہوا ،جس میں  شدت سےہر قسم کی سود خوری کا ممانعت کا اعلان کیا گیا  اور اس سے باز نہ آنے کو    خدا ورسول  سے جنگ کرنے کے متراف قرار دیا گیا  ،باری تعالی کا ارشاد ہے :

"«الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ. يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ. إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ. فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ»"( البقرة، 275 – 279 )

"ترجمہ:اورجو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں گے(قیامت کے دن قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنادے لپٹ کر( یعنی حیران ومدہوش) یہ ( سزا) اسی لئے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہاتھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے ،حالانکہ اللہ تعالی نے بیع کو حلال فرمایاہے اور سود کر حرام کردیاہے،پھر جس شخص کو اس  کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہوچکاہے وہ اسی کا رہا اور(باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالے رہا اورجو شخص پھر عود کرلے تو یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے وہ اس  میں ہمشیہ رہیں گے، اللہ تعالی سود کو مٹاتے ہیں اورصدقات کو بڑھاتے ہیں اور اللہ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیں اورانہوں نے نیک کام کئے اور( بالخصوص) نمازکی پابندی کی اورزکوۃ دی ان کے لئے انکا ثواب ہوگا انکے  پروردگار کے نزدیک اور(آخرت میں) اُن پر کوئی خطر نہیں ہوگا اورنہ وہ مغموم ہونگے۔

اے ایمان والوں! اللہ سے ڈرو اورجو کچھ  سو دکا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو ،پھر  اگر تم اس پر عمل نہ کروگے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اوراس کی رسول کی طرف سے ( یعنی تم پر  جہاد ہوگا) اوراگر تم تو بہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال  مل جائیں گے،نہ  تم کسی پر ظلم کرنے پاؤں گے اورنہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائےگا۔(بیان القرآن)

روائع البيان تفسير آيات الأحكام میں ہے:

"الأدوار التي مرّ بها تحريم الربا:

من المستحسن أن نذكر هنا الأدوارالتي مرّ بها تحريم الربا، حتى ندرك سر التشريع الإسلامي، في معالجته للأمراض الاجتماعية، فنم المعلوم أن التشريع الإسلامي سار (بسُنّة التدرج) في تقرير الأحكام.ولقد مرّ تحريم «الربا» بأربعة أدوار كما حدث في تحريم الخمر، وذلك تمشياً مع قاعدة التدرج.

الدول الأول: نزل قوله تعالى: {وَمَآ آتَيْتُمْ مِّن رِّباً لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ الناس فَلَا يَرْبُواْ عِندَ الله وَمَآ آتَيْتُمْ مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ الله فأولئك هُمُ المضعفون} [الروم: 39] وهذه الآية الكريمة نزلت في مكة وهي - كما يظهر - ليس فيها ما يشير إلى تحريم الربا وإنما فيها إشارة إلى بغض الله للربا، وأن الربا ليس له ثواب عند الله فهي إذن (موعظة سلبية) .

الدورالثاني: نزل قوله تعالى: {فَبِظُلْمٍ مِّنَ الذين هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ الله كَثِيراً وَأَخْذِهِمُ الربا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ} [النساء: 160 - 161] وهذه الآية مدنية، وهي درس قصه الله سبحانه علينا من سيرة اليهود الذي حرم عليهم الربا فأكلوه واستحقوا عليه اللعنة والغضب، وهو تحريم (بالتلويح) لا (بالتصريح) لأنه حكاية عن جرائم اليهود وليس فيه ما يدل دلالة قطعية على أن الربا محرّم على المسلمين. وهذا نظير (الدور الثاني) في تحريم الخمر {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الخمر والميسر قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ ومنافع لِلنَّاسِ} [البقرة: 219] الآية حيث كان التحريم فيه بالتلويح لا بالتصريح.

الدور الثالث: نزل قوله تعالى: {ياأيها الذين آمَنُواْ لَا تَأْكُلُواْ الرباوا أضعافا مضاعفة} [آل عمران: 130] . الآية وهذه الآية مدنية وفيها تحريم للربا صريح ولكنه تحريم (جزئي) لا (كلي) لأنه تحريم لنوع من الربا الذي يسمى (الربا الفاحش) وهو الربا الذي بلغ في الشناعة والقبح الذرة العليا، وبلغ في الإجرام النهاية العظمى، حيث كان الدَيْنُ فيه يتزايد حتى يصبح أضعافاً مضاعفة، يضعف عن سداده كاهل المستدين، الذي استدان لحاجته وضرورته وهو يشبه تحريم الخمر في المرحلة الثالثة حيث كان التحريم جزئياً لا كلياً في أوقات الصلاة،{يَا أَيُّهَا الذين آمَنُواْ لَا تَقْرَبُواْ الصلاوة وَأَنْتُمْ سكارى حتى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ … } [النساء: 43] الآية.

الدور الرابع: وفي هذا الدور الأخير نزل التحريم الكلي القاطع، الذي لا يفرّق فيه القرآن بين قليل أو كثير، والذي تدل النصوص الكريمة على أنه قد ختم فيه التشريع السماوي بالنسبة إلى حكم الربا، فقد نزل قوله تعالى: {ياأيها الذين آمَنُواْ اتقوا الله وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرباوا إِن كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ الله وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أموالكم لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ … } الآيات.

وهذه الآيات الكريمة التي كانت المرحلة النهائية في تحريم الربا تشبه المرحلة النهائية في تحريم الخمر في المرحلة الرابعة منه حيث حرمت الخمر تحريماً قاطعاً جازماً في قوله تعالى: {ياأيها الذين آمَنُواْ إِنَّمَا الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشيطان فاجتنبوه لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [المائدة: 90] .وبهذا البيان يتضح لنا سر التشريع الإسلامي في معالجة الأمراض الاجتماعية التي كان عليها العرب في الجاهلية بالسير بهم في طريق (التدرج) .

الأحكام الشرعية.

(الربا جريمة اجتماعية خطيرة،ج:1،ص:389،ط:مكتبة الغزالي - دمشق)

صحيح البخاری میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال «آخر آية نزلت على النبي صلى الله عليه وسلم آية الربا»."

(كتاب تفسير القرآن،‌‌باب {واتقوا يوما ترجعون فيه إلى الله} [البقرة: 281]،ج:6،ص:33،ط:4544،ط:المطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144405100017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں