بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سوسائٹی میں کمیٹی کی اجازت کے بغیر کام کرنے والوں کے خلاف عدالت میں کیس کرنا اور اس پر سوسائٹی کا عمومی فنڈ استعمال کرنے کا حکم


سوال

ایک سوسائٹی ہے،جس میں کچھ گھر والوں نے سوسائٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  کمرشل کام کروایا، جس کی وجہ سے سوسائٹی کی کمیٹی نے سوسائٹی والوں کی بھلائی کے لیے ان کے خلاف عدالت میں کیس کردیا، اس پر دونوں طرف سے پیسہ خرچ ہوا ، ہمارے پاس جو پیسے تھے وہ سوسائٹی والوں کے تھے،اور کیس کو بھی دس پندرہ سال ہوگئے ہیں ۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ عدالت میں چوں کہ پیسہ بہت خرچ ہورہا ہےاور کچھ پتہ نہیں کیس کب تک چلے،  اگر ہم کیس جیت بھی گئے تو اخراجات کے لیے دوبارہ کیس کرناپڑےگا اور اس پر کتنا وقت اورپیسہ لگے گا کچھ معلوم نہیں ،اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ عدالت کا کیس ختم کردیں اور ان سے بطورِ تجویز کہہ دیں کہ  آپ اپنی خوشی سے سوسائٹی کو کچھ کنٹری بیوٹ (contribute) کردیں ، چاہے وہ مسجد کےلیے ہی کیوں نہ ہو۔مثلاًہمارا عدالت میں کیس کراتے وقت جو خرچہ ہو اوہ چار لاکھ روپے ہے ، اور وہ چار لاکھ روپے آج ہوتے تو پتہ نہیں کتنے زیادہ ہوچکے ہوتے ، تو ہم چاہ رہے ہیں کہ علاقے میں لڑائی کا جو ماحول بنا ہوا ہے، اسے ختم کریں اور مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں اوران سے سیٹلمنٹ کرتے ہوئے  ایگریمنٹ بنالیں کہ جوآپ کمرشل کام کررہے ہیں اس پر مل بیٹھ کرکوئی بات کرتے ہیں اور  جائز حق آپ کا ہے وہ ہم آپ کو دیں گے ۔ توا س کا م کے لیے ان سے کچھ اضافی رقم لے رہےہیں، جسے ہم ہرجانہ کے نام سے یاد کر رہے ہیں۔اس بارے میں مناسب تجویز کیا ہے ، شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرمذکورہ فریقین کے درمیان  باہمی رضامندی سے صلح واقع ہو جائے تو شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے کمیٹی والوں کو صرف اتنی ہی رقم لینے کا حق ہوگا جتنی رقم انہوں نےعدالت میں کیس پر  خرچ کی ہے ،اس سے زیادہ رقم لینا شرعاً ناجائز ہے ۔

 صلح نہ ہونے کی صورت میں اگر مذکورہ کمیٹی نے سوسائٹی کے لوگوں سے اجازت لیے بغیر ان کے فنڈ کی رقم کو کیس پر خرچ کیا تو مذکورہ کمیٹی نے چوں کہ بلا اجازت غیر کےمال میں تصرف کیا ہے اس وجہ سے کیس پر کیے گئے تمام اخراجات کے وہ ضامن ہوں گے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال".

(باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال،ج:۴، ص:۶۲،ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي".

 (باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال،ج:۴، ص:۶۱،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں