میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں، کمپنی نے ورکر کو میڈیکل کی سہولت بذریعہ سوشل سیکورٹی (ولیکہ ہسپتال)کی دی ہوئی ہے،سوشل سیکورٹی ایک گورنمنٹ کا ادارہ ہے، جو کہ کمپنی میں کام کرنے والے ورکر کو میڈیکل کی سہولت فراہم کرتا ہے، ہماری کمپنی سوشل سیکورٹی کے ادارے کو فی ورکر کے حساب سے ماہانہ یا سالانہ کچھ رقم جمع کرواتی ہے،اس میں علاج کروانے کی کوئی فکس رقم نہیں ہے، چاہے جو بھی علاج ہو ،اس کا مکمل خرچا سوشل سیکورٹی کے ذمے ہوتا ہے، اور علاج کے دوران جو چھٹیاں ہوتی ہے، اس کی دیہاڑی کے پیسے بھی سوشل سیکورٹی دیتی ہے، کیا اس طرح سے علاج کروانا اور علاج کے دوران ہونے والی چھٹوں کے پیسے لینا جائز ہوگا؟برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں کمپنی نے ورکر کو میڈیکل کی جو سہولت بذریعہ سوشل سیکورٹی (ولیکہ ہسپتال)کی دی ہوئی ہے،اگر یہ رقم ورکر سے ماہانہ یا سالانہ کٹوتی کے ذریعے ہوتی ہے،تو یہ طریقہ کارشرعاً ناجائزوحرام ہے،اس لیے کہ وہ اپنی اصل وضع کے اعتبارسے یاتوقمار(جوا)ہے، اوراگرکل رقم مع منافع کے حاصل ہوتوربوا(سود)ہے،جوااورسودکی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت ہے،ملازمین اس صورت میں صرف اسی قدرفائدہ اورمیڈیکل وغیرہ کی سہولت اٹھاسکتے ہیں جس قدرکمپنی نے اپنے ملازم کے لیے سوشل سیکورٹی کی مدمیں رقم جمع کروائی ہے،اس سے زائد فائدہ اٹھاناجائزنہیں ہوگا،بقدر رقم اس پالیسی سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
اور اگر یہ رقم کمپنی نےاز خود تمام ملازمین کے لیے سوشل سیکورٹی کو دی ہے، اور اس کی سالانہ قسط کمپنی خود ادا کرتی ہے،اس سارے عمل میں ملازم سے کسی قسم کی کٹوتی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی ہوتی ہے،تو پھراس صورت میں ملازمین کو جو میڈیکل سہولت دی جارہی ہے، اسے حاصل کرناجائز ہے،کیوں کہ یہ کمپنی کے طرف ایک تبرع ہے،اور یہی حکم دیہاڑی کا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(الأية:278)."
ترجمہ:" اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔"(بیان القرآن )
صحیح مسلم میں ہے:
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»".
(كتاب البيوع، باب لعن آكل الربا ومؤكله،ج:5، ص50، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا)
فتاوی شامی میں ہے:
" وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".
( کتاب الحظر والاباحۃ،403/6، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101916
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن