بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سوشل میڈیا پر لڑکیوں سے بات چیت کرنا جب کہ کوئی غلط نیت نہ ہو


سوال

سوشل میڈیا پر لڑکیوں سے بات کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ نیت صاف ہوتی ہے اور روز مرہ کے واقعات کے بارے میں ہی گفتگو کرتے ہیں۔

جواب

غیر محار م سے بات چیت کی شریعت نے صرف ضرورت کی حالت میں اجازت دی ہے، لہٰذا بلا ضرورت غیر محرم لڑکیوں سے بات چیت کرناخواہ روز مرہ کے معاملات پر گفتگو ہو یا اور کوئی گفتگو ہوجائز نہیں ہے،  چاہے وہ گفتگو سوشل میڈیا پر ہو یاکسی اور ذریعہ سے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جب بھی کوئی مرد وعورت تنہائی اختیار کرتے ہیں تو تیسرا اُن میں شیطان ہوتاہے، یہ تنہائی اگرچہ جسمانی اعتبار سے نہ ہو ، تاہم دل کے اعتبار سے تنہائی بھی فتنہ سے خالی نہیں۔ لہٰذا اگرنیت صاف بھی  ہو تب بھی شریعت کے حکم کی پابندی لازمی ہے اور  اجنبی لڑکی  سے بلاضرورت  بات چیت سے اجتناب ضروری ہے۔

سنن التر مذي   میں ہے:

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إياكم والدخول على النساء»، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو، قال: «الحمو الموت» وفي الباب عن عمر، وجابر، وعمرو بن العاص.: حديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح، وإنما معنى كراهية الدخول على النساء على نحو ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لا ‌يخلون ‌رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان»، " ومعنى قوله: «الحمو»، يقال: هو أخو الزوج، كأنه كره له أن يخلو بها."

(أبواب الرضاع، باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات، ج:3،ص:466، ط:مصطفى البابي الحلبي)

رد المحتار میں ہے:

"ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال - عليه الصلاة والسلام - «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها - عليه الصلاة والسلام - من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."

 ( كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مطلب في سترالعورة،ج:1،ص:406، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں