کیا یہ کہنے سے کہ "میں بھی سوچتا ہوں کہ چلی جاؤ "طلاق واقع ہوجائے گی ، بات یہ ہے کہ ایک صاحب کی ابھی حال ہی میں شادی ہوئی ہے، لیکن انہیں سرعتِ انزال کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ سوچتے رہتے ہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں یا وہ خود ہی اپنی والدہ کے گھر چلی جائے، اب مسئلہ یہ پیش آیا ان کی بیوی چند مہینے کے لیے اپنی والدہ کے گھر رہنے کی ان سے اجازت مانگنے لگی، جس پر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ " میں بھی سوچتا ہوں کہ چلی جاؤ"، لیکن انہیں یہ نہیں معلوم جس وقت انہوں نے یہ جملہ ( سوچتا ہوں کہ چلی جاؤ ) کہا تھا اس وقت ان کی نیت طلاق دینے کی تھی یا نہیں، کیا ایسی صورت میں بھی طلاق واقع ہوجائے گی؟ اور اگر واقع ہوگی تو کون سی، رجعی یا بائن ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا یہ جملہ ( میں بھی سوچتا ہوں کہ چلی جاؤ) سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور برقرار ہے۔
مراقی الفلاح میں ہے:
"و" الرابع منها "النطق بالتحريمة بحيث يسمع نفسه" بدون صمم ... وقال الهندواني: لاتجزئه ما لم تسمع أذناه ومن بقربه بالسماع شرط فيما يتعلق بالنطق باللسان التحريمة والقراءة السرية والتشهد والأذكار والتسمية على الذبيحة ووجوب سجود التلاوة والعتاق والطلاق والاستثناء واليمين والنذر والإسلام والإيمان حتى لو أجرى الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لايقع وإن صحح الحروف."
(مراقي الفلاح: كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة وأركانها (ص:84)،ط. المكتبة العصرية، الطبعة: الأولى، 1425 هـ - 2005 م)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144205201536
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن