بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سو سال بعد زمین پر ملکیت کا دعویٰ کرنے سے دعویٰ سننے کا حکم


سوال

 ایک بنجر زمین ہمارے دادا کو قبیلے کی طرف بطورِ اعزاز و انعام ملی تھی جس کو ہم نے دادا کے زمانے سیراب کیا پانی  کے لیے،  نہریں بنوائی اور تب سے اب تک یعنی قریبا کوئی (100) سال سے اوپر کا عرصہ ہوا ہے اس زمین کے کلی مالک و متصرف رہے ہیں بغیر کسی شرکت کے ، اب ہمارے والد کا چچا زاد بھائی سو سال سے زائد عرصہ کے بعد اس زمین پہ اپنی ملکیت کا دعوی کر رہا ہے اور کہتا ہے میرے ساتھ شریعت کرو، پوچھنا یہ ہے کیا سو سال بعد کوئی کسی زمین پہ دعوی کر کے اس کو شرعی علماء کی کمیٹی بیٹھ کر اس دعوی کو سن سکتی ہےعندالشرع؟ واضح رہے تب سے اب تک اس زمین پہ اس کا دعوی کرنے کیلئے کوئی بھی امر مانع نہیں تھا۔ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی  چیز پر عرصہ دراز تک قبضہ کرنے سے  اصل مالک کی ملکیت اس چیز   سے ختم نہیں ہوتی  ہے ،  بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت میں باقی رہتی ہے،لیکن چوں کہ زمانہ خیر کا نہیں رہا ،شر و فساد کا دور ہے، حیلہ سازی اور فریب کاری عام ہے،غلط طریقے اور ناجائز بہانے سے مدت دراز کے بعد ناجائز دعوے پیش کیے جانے کا قوی اندیشہ ہے، اس لیے فقہاء متاخرین نے شرعی اجتہاد کی رو سے وقت کی ضرورت کے تحت شرعی عذر کے بغیرپندرہ سال کے  بعد  پیش آنے والے مقدمات عام عدالتوں کے لیے   اورتیس سال یا تینتیس سال یا چھتیس سال (علی مختلف الاقوال )کے بعد پیش آنے والے مقدمات حاکم وقت یااس کی طرف سے متعینہ خصوصی عدالت کے لیے ناقابل سماعت قرار دیے ہیں ؛اس لیے اگر کوئی شخص  بغیر کسی شرعی عذر کے تیس سال /تینتیس سال /چھتیس سال    کے بعد دعوی کرتا ہے تو اس کی سماعت کا اختیار نہ    حاکم وقت اور اس کی طرف سے متعینہ خصوصی عدالتوں کو   ہے اور نہ ہی عام عدالتوں اور مروّج شرعی علماء کمیٹی کو ۔

البتہ   اگر کسی   معقول اور شرعی عذر کی بناء پر پندرہ سال /تیس سال / تینتیس سال / چھتیس سال کے اندر  اپنے دعوی کو عدالت میں پیش نہ کر سکا تو کسی مدت کی تعیین کے  بغیر حاکم ِوقت اور   ہر عام و خاص عدالت کو  اس کے مقدمہ کی سماعت اختیار ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ چچا زاد بھائیوں نے بغیر کسی شرعی عذر کے  (100) سال کے  بعد دعوی کیا ہے کہ مذکورہ زمین ان کی ہےتو ان کا یہ دعوی    قابلِ سماعت نہیں ہے  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فلا ينافي ما في الأشباه وغيرها من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان اهـ".

(کتاب القضاء ،ج:5، ص:420، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"القضاء مظهر لا مثبت ويتخصص بزمان ومكان وخصومة حتى لو أمر السلطان بعد سماع الدعوى بعد خمسة عشر سنة فسمعها لم ينفذ.قلت: فلا تسمع الآن بعدها إلا بأمر إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي وبه أفتى المفتي أبو السعود فليحفظ".

(کتاب القضاء ،ج:5،ص:420،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"يجب على السلطان الذي نهى قضاته عن سماع الدعوى بعد هذه المدة أن يسمعها بنفسه، أو يأمر بسماعها، كي لا يضيع حق المدعي".

(کتاب القضاء ، ج:5، ص:420، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي جامع الفتوى عن فتاوى العتابي قال المتأخرون من أهل الفتوى: لا تسمع الدعوى بعد ست وثلاثين سنة إلا أن يكون المدعي غائبا أو صبيا أو مجنونا وليس لهما ولي أو المدعى عليه أميرا جائرا اهـ. ونقل ط عن الخلاصة لا تسمع بعد ثلاثين سنة اهـ. ثم لا يخفى أن هذا ليس مبنيا على المنع السلطاني بل هو منع من الفقهاء فلا تسمع الدعوى بعده وإن أمر السلطان بسماعها".

(کتاب القضاء، ج:5، ص:420، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں