بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سو بار درود شریف پڑھنے کی فضیلت کی تحقیق


سوال

ایسی کوئی حدیث ہے کہ جو شخص سو مرتبہ درود پڑھے  اس کی سو حاجات پوری ہوجاتی ہیں؟ 

جواب

سو مرتبہ درود شریف پڑھنےسے سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں ،  اس معنی کی روایت دو صحابہ  کرام رضی اللہ عنہما سے منقول ہے:

۱- حضرت جابر رضی اللہ عنہ  

۲- حضرت انس رضی اللہ عنہ ۔

​یہ روایت اس طرح عام بغير كسی وقت اور دن کی قید کے  بھی مروی ہے ، اور وقت اور دن کی قید کے ساتھ بھی مروی ہے ، بالترتیب  تفصیل دج ذیل ہے : 

(۱) عمومی  روایت:

"مَن صلَّى علَيَّ في كل يوم مائة مرة قضى الله له مائة حاجة: سبعين منها لآخرته، وثلاثين منها لدنياه".

​یہ روایت بغیر سند کے امام سیوطی رحمہ اللہ نے ابن النجار اور مستغفری رحمہما اللہ کی طرف منسوب کرکے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی کتب  میں نقل کی ہے ،  حوالے درج ذیل ہیں: 

١-"  عزاه السيوطي إلى ابن النجار محمد بن محمود بن حسن بن هبة الله (643هـ) صاحب ذيل تاريخ بغداد في "جمع الجوامع" حرف الميم، (9/474)، ط/ الأزهر الشريف، القاهرة - جمهورية مصر العربيةالطبعة الثانية، 1426هـ  2005م.  

وعزاه إلى المستغفري في "داعي الفلاح" (ص: 63)، برقم (82)، ط/دار البشير القاهرة ."

اس روایت کو سند کے ساتھ ابن قیم رحمہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ذکر فرمایا ہے، ملاحظہ فرمائیے : 

"قال ابن مندهالحافظ: حدثنا عبد الصمد العاصمي ، أخبرنا إبراهيم بن أحمد المستملي ، حدثنا محمد بن درستويه، حدثنا سهل بن متويه، حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا عباس بن بكار، حدثنا أبو بكر الهذلي، حدثنا محمد بن المنكدر، عن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مَن صلَّى علَيَّ في كل يوممائة مرة قضى الله له مائة حاجة: سبعين منها لآخرته ، وثلاثين منها لدنياه". قال الحافظ أبوموسى المديني: هذا حديث حسن ".

(جلاء الأفهام لابن قيم، الموطن الثلاث والثلاثون من مواطن الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم عند الحاجة تعرض للعبد، (ص: 431-432)، ط/ دار العروبة – الكويت الطبعة الثانية 1407 – 1987).

ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جو کوئی ہر روز مجھ پرسو بار درود پڑھے اس کی سو حاجتیں پوری کی جاویں،ستر ان میں سے اس کی آخرت کی ، اور تیس ان میں اس کی دنیا کی ۔ حافظ ابو موسی مدینی رحمہ اللہ نےفرمایا  : یہ حدیث حسن ہے ۔

حكم حديث: 

اس روایت پر کلام کرتے ہوئے امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  حافظ أبو موسی مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’یہ حدیث غریب حسن ہے‘‘ ۔

"أخرجه ابن منده وقال الحافظ أبو موسى المديني: أنه حديث غريب حسن."

(القول البدیع، الباب الثاني في ثواب الصلاة على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ،(ص: 134)، ط/ دار الريان للتراث)

اور دوسری جگہ امام سخاوی رحمہ اللہ اسی روایت پر کلا م کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حافظ  أبو موسی  مدینی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ یہ حدیث غریب ہے ‘‘۔

اور امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا ایک شاہد حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے،  لیکن اس روایت میں جمعہ اور شب جمعہ کی قید بھی ہے۔

"وقال الحافظ أبو موسى المديني: "إنه غريب". وله شاهد عن أنس، لكن بقيد يوم الجمعة وليلتها."

(الأجوبة المرضية (3/ 947) برقم (267)، ط/ دار الراية للنشر والتوزيع، الطبعة الأولى، 1418هـ)

٢- خاص وقت سے مقید روایت: 

بعد الفجر والمغرب کی قید کے ساتھ  حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے:

"قال أحمد بن موسى الحافظ، حدثنا عبد الرحيم بن محمد بن مسلم، قال ثنا عبد الله بن أحمد بن محمد بن أسيد، حدثنا إسماعيل بن يزيد ، حدثنا إبراهيم بن الأشعث الخراساني، حدثنا عبد الله بن سنان بن عقبة بن أبي عائشة المدني، عن أبي سهل بن مالك ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من صلى عليَّ مائة صلاة حين يصلي الصبح قبل أن يتكلم قضى الله له مائةحاجة، عجل له منها ثلاثين حاجة، وأخر له سبعين، وفي المغرب مثل ذلك) ".

(جلاء الأفهام لابن قيم، الموطن الثلاث والثلاثون من مواطن الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم عند الحاجة تعرض للعبد، (ص: 430)، ط/ دار العروبة – الكويت الطبعة الثانية 1407 –1987).

ترجمہ: "حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”جو شخص نمازِ فجر کے بعد کسی سے بات چیت کرنے سے پہلے مجھ پر سو بار درود پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کی سو ضرورتیں پوری فرمائیں گے۔ تیس ضرورتیں دنیا میں ہی پوری کر دیں گے اور ستّر (۷۰) آخرت کے لیے باقی رکھیں گے (ستّر ضرورتیں آخرت میں پوری فرمائیں گے) اور اگر کوئی مغرب کی نماز کے بعد سو بار درود  پڑھے، تو اس کے لیے بھی یہی وعدہ ہے۔"

حكم حديث:  اس روایت پر کلام کرتے ہوئے امام سخاوی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں كہ اس روایت کو حافظ أحمد بن موسی نے سند ضعیف کے ساتھ روايت كيا ہے  ۔

"رواه أحمد بن موسى الحافظ بسند ضعيف" انتهى."

(القول البدیع، الباب الخامس في الصلاة عليه في أوقات مخصوصة، (ص: 179)، ط/ دار الريان للتراث)

۳- خاص دن سے مقید روایت :

اور خاص دن  کی تعیین کے ساتھ یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن أقربكم مني يوم القيامة في كل موطن أكثركم عليَّ صلاة في الدنيا، من صلى عليَّ في يوم الجمعة وليلة الجمعة مائة مرة قضى الله له مائة حاجة، سبعين من حوائج الآخرة، وثلاثين من حوائج الدنيا ... إلخ ".

(۱) رواه ابن منده في " الفوائد " (ص: 82)، ط/ مكتبة القرآن - القاهرة .

(2) والبيهقي في " شعب الإيمان " (4/435)، برقم (2773)، ط/مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض.

وفي "حياة الأنبياء" (ص: 93و94)، برقم (13)، ط/مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة الطبعة الأولى، 1414هـ - 1993م.

وفي "فضائل الأوقات" (ص:498)، برقم (276)، ط/ مكتبةالمنارة - مكة المكرمة الطبعة الأولى 1410هـ .

(3) وابن عساكر من طريق البيهقي في " تاريخ دمشق " (54/301)، حرف الميم، ط/دار الفكر، الطبعة الأولى 1418هـ . 

(4) وعزاه السيوطي للأصبهاني في الترغيب في "الحاوي"، أنباء الأذكياء بحياة الأنبياء، (2/178)، ط/ دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان 1424 هـ - 2004 م

ترجمہ :’’حضرت انس بن مالک رضی  اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ حضور نبی  اکرم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک قیامت کے روز ہر مقام پر تم میں سے  سب سے زیادہ میرے  وہ شخص ہو گا جو دنیا میں  تم میں  سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہو گا، پس جو شخص جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالی  اس کی  سو حاجتیں پوری فرما دیتا ہے ، ستر  حاجتیں آخرت کی حاجتوں سے اور تیس  دنیا کی  حاجتوں سے متعلق ہیں‘‘۔

حكم حديث:  اس روايت پر کلام کرتے ہوئے حافظ  ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث غریب ہے، اس روایت کو بعینہ امام بیہقی  رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ فضائل الأوقات‘‘  میں  ذکر کیا ہے ، اور انہوں نے اس کو ضعیف قرار نہیں دیا ، اور میں نہیں دیکھتا اس کے روات میں کوئی قابل اعتراض راوی سوائے عثمان بن دینار کے ، ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب ’’میزان الاعتدال‘‘ میں ذکر کیا ہے اور جرح بھی کی ہے ، لیکن جرح کسی کی جانب منسوب نہیں کی ہے ‘‘۔

"هذا حديث غريب. أخرجه البيهقي هكذا في فضائل الأوقات، ولم يضعفه، ولم أر في رواته إلا عثمان بن دينار، فإن الذهبي ذكره في الميزان ولم ينسب جرحه لأحد."

(نتائج الأفكارفي تخريج أحاديث الأذكار ، (5/56و57)، ط/ دارابن كثير، الطبعة الثانية 1429هـ - 2008م)

ان تینوں روایات کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایات  سنداً کمزور ہیں ، لیکن یہ ایک دوسرے کے لیے شاہد بن سکتی ہیں ، جیسا کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے حدیث انس رضی  اللہ  عنہ کو پہلی حدیث جابر رضی اللہ عنہ کا شاہد قرار دیا ۔ 

یہی وجہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اس  عمومی روایت جابر رضی اللہ عنہ کو قابل بیان سمجھتے ہوئے اپنی کتاب ’’زاد السعید‘‘میں مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمۃ کی کتاب ’’فضائل درود وسلام ‘‘سے  امام مستغفری رحمہ اللہ کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔

حوالہ جات : 

(۱)  زاد السعیدللتھانوی رحمہ اللہ ،فصل سوم :فضائل درود شریف، (ص: 10) ، رقم (۱۸)  ط،خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلستان جوہر کراچی۔

(۲) فضائل درود وسلام لعنایت اللہ الکاکوروی رحمہ اللہ،(فصل دوم: بیان احادیث فضائل درود وسلام میں ، (ص: ۷)، ط/مطبع مجیدی واقع کانپور۔

لہذا ان روایات کو فضائل کے باب میں بیان کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311101247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں