بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سو گرام سونے پر دو گرام سونا بطور نفع مقرر کرنا


سوال

میں نے کسی کو سو گرام سونا دیا اور میں نے اس سے کہا کہ اس کے نفع کا دو گرام سونا مجھ کو دے دینا، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کا مقصد اگر سو گرام سونا بطورِ قرض دے کر  اس پر دو گرام زائد  یعنی 102 گرام سونا وصول کرنے کا حکم جاننا ہے تو ایسا کرنا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، اس صورت میں جتنا سونا قرض دیا گیا ہو اتنا ہی واپس لینا شرعًا ضروری ہے۔

اور اگر سو گرام سونا دینے سے سائل کی مراد  یہ ہے کہ کسی کو تجارت کی غرض سے سونا دیا جائے، اور اس پر متعین دو گرام نفع مقرر کیا جائے تو یہ صورت بھی جائز نہ ہوگی، اس لیے کہ  شرعًا شرکت یا مضاربت میں متعین نفع  کی شرط لگانا ممنوع ہے، جس کی وجہ سے شرکت یا مضابت فاسد ہوجاتی ہے، البتہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ رب المال (سرمایہ دار یعنی سو گرام سونا دینے والا) اور  عامل، مضارب یا شریک (یعنی جسے سونا تجارت  کے لیے دیا ہے)  کے درمیان منافع  کے  حوالے سے یوں معاہدہ کیا جائے کہ سو گرام سونے پر جو کچھ نفع ہوگا وہ نفع آپس میں مثلًا نصف و نصف  یا 40 و 60 کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"[مَطْلَبٌ كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ]

(قَوْلُهُ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ) أَيْ إذَا كَانَ مَشْرُوطًا كَمَا عُلِمَ مِمَّا نَقَلَهُ عَنْ الْبَحْرِ، وَعَنْ الْخُلَاصَةِ وَفِي الذَّخِيرَةِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ النَّفْعُ مَشْرُوطًا فِي الْقَرْضِ، فَعَلَى قَوْلِ الْكَرْخِيِّ لَا بَأْسَ بِهِ وَيَأْتِي تَمَامُهُ."

(كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، فصل في القرض، ۵ / ۱۶۶، ط: دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"الرَّابِعُ أَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ بَيْنَهُمَا شَائِعًا كَالنِّصْفِ وَالثُّلُثِ لَا سَهْمًا مُعَيَّنًا يَقْطَعُ الشَّرِكَةَ كَمِائَةِ دِرْهَمٍ أَوْ مَعَ النِّصْفِ عَشَرَةٌ."

(كِتَابُ الْمُضَارَبَةِ، ٧ / ٢٦٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

الجوهرة النيرة میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَمِنْ شَرْطِهَا أَنْ يَكُون الرِّبْحُ بَيْنَهُمَا مُشَاعًا لَايَسْتَحِقُّ أَحَدُهُمَا مِنْهُ دَرَاهِمَ مُسَمَّاةً) لِأَنَّ شَرْطَ ذَلِكَ يَقْطَعُ الشَّرِكَةَ لِجَوَازِ أَنْ لَا يَحْصُلَ مِنْ الرِّبْحِ إلَّا تِلْكَ الدَّرَاهِمُ الْمُسَمَّاةُ قَالَ فِي شَرْحِهِ: إذَا دَفَعَ إلَى رَجُلٍ مَالًا مُضَارَبَةً عَلَى أَنَّ مَا رَزَقَ اللَّهُ فَلِلْمُضَارِبِ مِائَةُ دِرْهَمٍ فَالْمُضَارَبَةُ فَاسِدَةٌ فَإِنْ عَمِلَ فِي هَذَا فَرَبِحَ، أَوْ لَمْ يَرْبَحْ فَلَهُ أَجْرُ مِثْلِهِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ الرِّبْحِ شَيْءٌ؛ لِأَنَّهُ اسْتَوْفَى عَمَلَهُ عَنْ عَقْدٍ فَاسِدٍ بِبَدَلٍ فَإِذَا لَمْ يُسَلِّمْ إلَيْهِ الْبَدَلَ رَجَعَ إلَى أُجْرَةِ الْمِثْلِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ الرِّبْحِ شَيْءٌ كَمَا فِي الْإِجَارَةِ قَالَ أَبُو يُوسُفَ: لَهُ أَجْرُ مِثْلِهِ لَا يُجَاوِزُ بِهِ الْمُسَمَّى.

وَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَهُ الْأَجْرُ بَالِغًا مَا بَلَغَ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ إذَا لَمْ يَرْبَحْ لَا أَجْرَ لَهُ؛ لِأَنَّ الْمُضَارَبَةَ الْفَاسِدَةَ لَا تَكُونُ أَقْوَى مِنْ الصَّحِيحَةِ وَمَعْلُومٌ أَنَّ الْمُضَارِبَ فِي الصَّحِيحَةِ إذَا لَمْ يَرْبَحْ لَمْ يَسْتَحِقَّ شَيْئًا فَفِي الْفَاسِدَةِ أَوْلَى.

وَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَهُ الْأَجْرُ رَبِحَ، أَوْ لَمْ يَرْبَحْ؛ لِأَنَّهَا إذَا فَسَدَتْ صَارَتْ إجَارَةً، وَالْإِجَارَةُ يَجِبُ فِيهَا الْأَجْرُ رَبِحَ، أَوْ لَمْ يَرْبَحْ."

(كتاب المضاربة، ١ / ٢٩٢، ط: المطبعة الخيرية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں