بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

سنوکر کلب کی کمائی کا حکم


سوال

پاکستان میں سنوکر کھیلا جاتا ہے جس میں جو کھلاڑی ہار جائے وہ پیسے دیتا ہے گیم کے۔ جب کہ باہر ممالک میں ایسا نہیں ہے یہاں پر وقت کے پیسے ہوتے ہیں جیسے 1 گھنٹے کے 30 ریال اور اس میں یہ شرط نہیں ہوتی کہ پیسے ہارنے والا دے گا، بلکہ مالک نے وقت کے پیسے لینے ہوتے ہیں۔کیا یہ پیسہ مالک کہ لیےحلال ہے؟

جواب

 کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے  کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگااوراس کی کمائی بھی حرام ہوگی :

1۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو مثلًا  جسمانی   ورزش  وغیرہ ، محض  لہو  و لعب یا وقت گزاری  کے  لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔  کھیل  میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

  حاصل یہ ہے کہ اگر ”اسنوکر گیم“ میں   مذکورہ خرابیاں پائی جائیں  یعنی اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو  یا اس میں مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اسے محض  لہو  و لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو ( جیسا کہ عام طور پر سنوکر کلب میں یہ سب ہوتا ہے) تو  اس طرح  کا  گیم کا کھیلنا  جائز نہیں ہوگااور نہ اس کی کمائی حلال ہوگی، اور اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو بھی  ” سنوکر  گیم“ کھیلنے میں نہ جسمانی ورزش ہے، نہ دینی یا بامقصد دنیوی فائدہ ہے، ،صورتِ مسئولہ میں سنوکر کھیلنےکاعام مروجہ طریقۂ کار وہی ہے کہ ہارنے والا فرد یا جماعت اسنوکر کھیلنے کی قیمت کی ادائیگی کرتی ہے، اب چاہے اس کو وقت کی فیس  ہی کیوں نہ کہا جائے، شرعی اعتبار سے یہ وہی جوۓ کی رقم ہے جو ہارنے والی جماعت ادا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ ایسے مقامات عام طور پر کئی قسم اخلاقی خرابیوں مثلامیوزک  گانا بجانا لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ وغیرہ کا مرکز ہوتے ہیں، نیز ایسے کھیلوں میں حصہ لینے والے عموما  نمازوں سے غفلت کا شکار ہوتےہیں، ایسی صورت حال میں اسنوکر کلب کا کھولنا جوا اور غیر شرعی کاموں میں معاونت کرنا ہے، اس لیے اسنوکر کلب کھولنا جائز نہیں اور اس کی کمائی حلال نہیں ۔

    ارشادِ باری تعالی ہے:

"{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ }." [لقمان: 6]

       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها". 

( سورۃ لقمان 11 / 66، ط:دار الکتب العلمیة)

 سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها".

( کتاب الجهاد، ج:1،ص:363، ط: رحمانیہ)

تفسیر القرآن العظیم (تفسیر ابن کثیر )میں ہے:

"{ولا تعاونوا على الاثم و العدوان}، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم".

(سورۃ المائدۃ، رقم الآیة:2، ج:2، ص:10، ط:دار السلام)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه".

( قبیل کتاب الرؤیا، ج:4، ص:435، ط: دار العلوم کراچی)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں