بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے امام  وہ باجماعت نماز کے بعدجب سنت یا اگر عشاء کی نماز ہو تو وتر کے بعدیعنی جب نماز پوری ہوجاتی ہے  مقتدیوں کی طرف منہ کر کے دعا کرتےہیں، لیکن ہمارے امام صاحب کہتے ہیں کہ میں تو کسی کو نہیں کہتا کہ دعا کے لیے بیٹھ جائیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم دعا کرتے ہیں تو پوری نماز کے بعد کرتے ہیں جب نماز پوری ہوجاتی ہے،سنت کے بعد تو نہیں کرتے، کہتےہیں کہ ہماری سوچ یہ ہے کہ ہم عبادت کے اختتام پر دعا کرتے ہیں،نہ کہ سنت کے بعد، ایک دن میں نے نماز پڑھائی،  ہمارے امام نےبعد میں میرے بھائی سے کہاکہ بعدمیں اس نے دعا کی ہے؟ 

برائے مہربانی مجھے سمجھائیں کہ یہ جو ہمارے امام صاحب کرتے ہیں آیا یہ بدعت ہے کہ نہیں؟ 

جواب

 سنتوں کے بعد اجتماعی دعاکامعمول بدعت ہونے کی بناپر واجب الترک ہے، فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے بعد سنت اور نفل نماز الگ الگ ادا کی جاتی ہے  ، اور الگ الگ سنت اور نفل پڑھنے کے بعد  سب کا دوبارہ  جمع ہوکر اجتماعی دعا مانگنا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور سلفِ صالحین سے ثابت  نہیں ہے، البتہ  انفرادی طور پر اگر کوئی سنن ونوافل کے بعد دعا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اس میں حرج نہیں ہے۔

 اعلاء السنن میں ہے:

"و رحم اﷲ طائفة من المبتدعة في بعض أقطار الهند حیث واظبوا علی أن الإمام ومن معه یقومون بعد المکتوبة بعد قرائتهم اللهم أنت السلام و منك السلام الخ ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل یدعوالإمام عقب الفاتحة جهراً بدعاء مرةً ثانيةً والمقتدون یؤمنون علی ذلك وقدجری العمل منهم بذلك علی سبیل الالتزام والدوام حتی أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومین ضروري واجب حتی أنهم إذا وجدوا من الإمام تاخیراً لأجل اشتغاله بطویل السنن والنوافل اعترضوا علیه قائلین: إنا منتظرون للدعاء ثانیاً وهو یطیل صلاته وحتی أن متولي المساجد یجبرون الإمام الموظف علی ترویج هذا الدعاء المذکور بعد السنن والنوافل علی سبیل الالتزام، ومن لم یرض بذلك یعزلونه عن الإمامة و یطعنونه و لایصلون خلف من لایصنع بمثل صنیعهم، وأیم اﷲ! أن هذا أمر محدث في الدین … و أیضاً ففي ذلك من الحرج ما لایخفی وأیضاً فقد مرّ أن المندوب ینقلب مکروهاً إذا رفع عن رتبته لأن التیمن مستحب في کل شيء من أمور العبادات لکن لماخشی ابن مسعود أن یعتقدوا وجوبه أشار إلی کراهته. فکیف بمن أصرّ علی بدعة أومنکر؟… کان ذلك بدعة في الدین محرمة."

(3 / 205 ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406101053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں