بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایس ایم ایس (SMS) کے ذریعہ طلاق دینا


سوال

 مجھے پوچھنا ہے کیا ہمارے نبی کے دور میں ایس ایم ایس پر طلاق دی جاتی تھی؟  کیا طلاق کا معاملہ مذاق نہیں بن گیا ہے، کتنے ہی گھر اب اس وجہ سے خراب ہو رہے   ہیں، جس کا دل کر رہا ہے، کہیں بھی بیٹھا ہے،  سوشل میڈیا کے ذریعے طلاق دے رہا ہے  جب  کہ سورۂ  طلاق میں ہے  کہ طلاق کے لیے دو گواہوں کی موجودگی میں طلاق دی جائے؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے لیے گواہ بنانا مستحب تو ہے؛ تاکہ فریقین بعد میں جھوٹا دعویٰ  نہ کرسکیں، تاہم گواہ بنائے بغیر بھی اگر  کوئی  طلاق دے تو  طلاق واقع ہوجاتی ہے، طلاق واقع ہونے كے ليے گواہوں كی موجودگی ضروری نہیں ہے  ؛ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں طلاق کے کئی واقعات پیش آئے جن میں بغیر گواہی کے طلاق کا اعتبار کیا گیا، اگر طلاق میں گواہی یا دوسروں کا سننا ضروری ہوتا تو گواہ ضرور طلب کیے جاتے۔

باقی ایس ایم ایس (SMS)  چوں کہ جدید دور کی ایجادات میں سے ہے جو  تحریر کے حکم میں ہے ،کیوں کہ  جو پیغامات پہلے کاغذ پر تحریر کے ذریعہ پہونچائے جاتے تھے وہ آج کل ایس ایم ایس کے ذریعے  پہنچائے جاتے ہیں اور ان کی حیثیت مسلّم ہے،لہذا  اس طرح  لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے اور  اگر کوئی شخص ایس ایم ایس  پر طلاق دے تو شرعًا ایسی طلاق واقع ہوجائے گی ۔

تفسیر قرطبی میں ہے :

"قوله تعالى: (وأشهدوا ذوي عدل منكم) فيه ست مسائل: الأولى قوله تعالى: وأشهدوا أمر ‌بالإشهاد ‌على ‌الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعا. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى:(وأشهدوا إذا تبايعتم ) وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألا يقع بينهما التجاحد، وألا يتهم في إمساكها، ولئلا يموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية."

(سورۃ الطلاق،ج:۱۸،ص:۱۵۸،دارالکتب المصریۃ)

فتاوی شامی  میں ہے :

"وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو ... ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقراراً بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخةً وابعث بها إليها."

(کتاب الطلاق،مطلب فی الطلاق بالکتابۃ،ج:۳،ص:۲۴۶،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401101284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں