بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صلوۃ التسبیح کو مروی شدہ طریقہ کے علاوہ سے پڑھنے کا حکم


سوال

صلاۃ  التسبیح کے دو صحیح طریقے مروی ہیں،  جن میں سے ایک میں دس بار تسبیح  جلسہ استراحت میں پڑھے جاتے ہیں، اور ایک طریقے میں قیام میں،  کیا ہم پہلی رکعات دوسرے طریقے کے مطابق اور دوسری رکعات پہلے طریقے کے مطابق اور اس طرح تیسری رکعات دوسرے طریقے کے مطابق اور چوتھی رکعت پہلے طریقے کے مطابق پڑھ سکتے ہیں؟  تاکہ جلسہ استراحت بھی نہ کرنا پڑے اور  دونوں صحیح طریقوں پر ایک ساتھ عمل کر سکیں۔

جواب

بصورتِ  مسئولہ صلاۃ التسبیح کی چار  رکعت پڑھنے کے منقول ومروی طریقے دو ہیں:  لہذا چاروں  رکعتوں کو یا تو پہلے طریقے ( یعنی صلوۃ التسبیح کی نیت باندھ کر پہلی رکعت میں کھڑے ہوکر ثناء، تعوذ، تسمیہ، سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلےپندرہ  مرتبہ تسبیح پڑھنا، اور پھر رکوع، قومہ، سجدتین، جلسہ، اور جلسہ استراحت میں دس دس بار تسبیح کہنا) کےموافق پڑھنا چاہیے، یا دوسرے طریقے (یعنی صلوۃ التسبیح کی نیت باندھ کر پہلی رکعت میں کھڑے ہوکر ثناء کے بعد پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھے، پھر تعوذ، تسمیہ، سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے، اور پھر رکوع، قومہ، سجدہ اولی، جلسہ، اور پھر سجدہ ثانیہ   میں دس دس بار تسبیح کہنا) کے موافق پڑھنا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی طریقہ مروی نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وهي أربع بتسليمة أو تسليمتين، يقول فيها ثلثمائة مرة «سبحان الله، والحمد لله ولا إله إلا الله، والله أكبر» وفي رواية زيادة «ولا حول ولا قوة إلا بالله» يقول ذلك في كل ركعة خمسة وسبعين مرة؛ فبعد الثناء خمسة عشر، ثم بعد القراءة وفي ركوعه، والرفع منه، وكل من السجدتين، وفي الجلسة بينهما عشرا عشرا بعد تسبيح الركوع والسجود، وهذه الكيفية هي التي رواها الترمذي في جامعه عن عبد الله بن المبارك أحد أصحاب أبي حنيفة الذي شاركه في العلم والزهد والورع، وعليها اقتصر في القنية وقال إنها المختار من الروايتين. والرواية الثانية: أن يقتصر في القيام على خمسة عشر مرة بعد القراءة، والعشرة الباقية يأتي بها بعد الرفع من السجدة الثانية، واقتصر عليها في الحاوي القدسي والحلية والبحر، وحديثها أشهر، لكن قال في شرح المنية: إن الصفة التي ذكرها ابن المبارك هي التي ذكرها في مختصر البحر، وهي الموافقة لمذهبنا لعدم الاحتياج فيها إلى جلسة الاستراحة إذ هي مكروهة عندنا. اهـ.

قلت: ولعله اختارها في القنية لهذا، لكن علمت أن ثبوت حديثها يثبتها وإن كان فيها ذلك، فالذي ينبغي فعل هذه مرة وهذه مرة. "

(كتاب الصلوة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:27، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209200749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں