بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صلاۃ التسبیح میں ثناء کے بعد 25 دفعہ تیسرا کلمہ پڑھنا


سوال

صلاة التسبیح میں ثناء کے بعد 15 دفعہ تیسرا کلمہ پڑھنا ہے اور اور پھر تلاوت کے بعد 10 دفعہ، یوں 25 دفعہ ہو گا، اگر میں شروع سے ثناء کے بعد 25 دفعہ پڑھ کر پھر سورت فاتحہ اور دوسری سورت تلات کر کے رکوع  کیا تو کیا اس طرح صلوة التسبیح ٹھیک ہو گئی ؟

جواب

واضح رہے کہ  صلاۃ التسبیح کے پڑھنے کے دو طریقے ہیں:

پہلا طریقہ:

۱۔۔۔ نیت :چار رکعت صلاۃ التسبیح کی نماز پڑھ رہا ہوں، ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور حسبِ معمول ثناء پڑھے ، ثناء یہ ہے:
’’ سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ، وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ‘‘
پھرأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ اور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے:
’’ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘
۲...رکوع میں جانے کے بعد حسبِ معمول تین مرتبہ ’’ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ‘‘ پڑھے، پھر دس مرتبہ مذکورہ بالا تسبیح پڑھے، اس کے بعد رکوع سے اٹھے۔
۳...رکوع سےاٹھتے ہوئے پہلے حسبِ معمول ’’سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه‘‘ کہے اور کھڑا ہو کر’’ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد‘‘کہے، پھرکھڑے کھڑے دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے۔
۴... پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور حسبِ معمول ’’ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلیٰ‘‘تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے، اس کے بعد’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہہ کر سجدے سے اٹھے۔
۵... سجدے سے اٹھ کر بیٹھے اور بیٹھے بیٹھے دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے پھر’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہہ کر دوسرے سجدے میں جائے۔
۶... دوسرے سجدے میں بھی  حسبِ معمول پہلے ’’ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلیٰ‘‘تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ مذکورہ تسبیح پڑھے۔
۷...دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کرمذکورہ بالا تسبیح دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔
اس طرح ایک رکعت میں پچھتر(۷۵) مرتبہ یہ تسبیحات پڑھی گئیں، اسی طرح باقی تین رکعتیں بھی پڑھ لے۔یوں چار رکعتوں میں کل تین سو تسبیحات ہو جائیں گی، دوسری اور چوتھی رکعت کے قعدے میں یہ تسبیحات التحیات پڑھنے کے بعد پڑھے۔
دوسرا طریقہ :

حضرت عبد اللہ بن مبار ک رحمہ اللہ سے ایک اور طریقہ بھی ثابت ہے،وہ طریقہ یہ ہے:
’’ نیت باندھنے کے بعد ثناءپڑھے اور اس کے بعد پندرہ مرتبہ مذکورہ تسبیحات پڑھے پھراعوذ باللہ، بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ان تسبیحات کو دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسرے سجدے تک دس دس مرتبہ پڑھتا رہے،دوسرے سجدے سے اٹھتے ہوئے ان تسبیحات کو نہ پڑھے، بلکہ سجدے سے براہ راست ’’اللہ أکبر‘‘ کہتاہوا سیدھا کھڑا ہو جائے، کیوں کہ اس طریقے کے مطابق دوسرے سجدے میں دس مرتبہ مذکورہ تسبیحات پڑھنے کے بعد تسبیحات کی تعداد پچھتر ہوجائے گی۔

بعض علماءکرام  دوسرے طریقے کو افضل کہتے ہیں، اور وجہ فضیلت یہ بیان فرماتے ہیں کہ چوں کہ پہلے طریقے میں جلسہ استراحت کی ضرورت پڑتی ہے، اور ہمارے ہاں جلسہ استراحت راجح نہیں؛ اس لیے وہ طریقہ افضل ہے جس میں جلسہ استراحت موجود نہیں، لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان دونوں طریقوں سے ہی صلاۃ التسبیح پڑھنی چاہیے، کبھی پہلے طریقے سے ،کبھی دوسرے طریقے سے،لہذا ان دو طریقوں کے  علاوہ کسی اور طریقے  سے نہیں پڑھی جائے ۔

صورتِ مسئولہ میں   ثناء کے بعدتسبیحات کو ایک ساتھ پڑھ لیا تو  صلاۃ التسبیح اد اہو گئی،  لیکن مذکورہ جو طریقے ثابت ہیں اسی طرح ہی پڑھا جائے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في ‌صلاة ‌التسبيح.(قوله وأربع ‌صلاة ‌التسبيح إلخ) يفعلها في كل وقت لا كراهة فيه، أو في كل يوم أو ليلة مرة، وإلا ففي كل أسبوع أو جمعة أو شهر أو العمر، وحديثها حسن لكثرة طرقه. ووهم من زعم وضعه، وفيها ثواب لا يتناهى ومن ثم قال بعض المحققين: لا يسمع بعظيم فضلها ويتركها إلا متهاون بالدين، والطعن في ندبها بأن فيها تغييرا لنظم الصلاة إنما يأتي على ضعف حديثها فإذا ارتقى إلى درجة الحسن أثبتها وإن كان فيها ذلك، وهي أربع بتسليمة أو تسليمتين، يقول فيها ثلثمائة مرة «سبحان الله، والحمد لله ولا إله إلا الله، والله أكبر» وفي رواية زيادة «ولا حول ولا قوة إلا بالله» يقول ذلك في كل ركعة خمسة وسبعين مرة؛ فبعد الثناء خمسة عشر، ثم بعد القراءة وفي ركوعه، والرفع منه، وكل من السجدتين، وفي الجلسة بينهما عشرا عشرا بعد تسبيح الركوع والسجود، وهذه الكيفية هي التي رواها الترمذي في جامعه عن عبد الله بن المبارك أحد أصحاب أبي حنيفة الذي شاركه في العلم والزهد والورع، وعليها اقتصر في القنية وقال إنها المختار من الروايتين. والرواية الثانية: أن يقتصر في القيام على خمسة عشر مرة بعد القراءة، والعشرة الباقية يأتي بها بعد الرفع من السجدة الثانية، واقتصر عليها في الحاوي القدسي والحلية والبحر، وحديثها أشهر، لكن قال في شرح المنية: إن الصفة التي ذكرها ابن المبارك هي التي ذكرها في مختصر البحر، وهي الموافقة لمذهبنا لعدم الاحتياج فيها إلى جلسة الاستراحة إذ هي مكروهة عندنا. اهـ.

قلت: ولعله اختارها في القنية لهذا، لكن علمت أن ثبوت حديثها يثبتها وإن كان فيها ذلك، فالذي ينبغي فعل هذه مرة وهذه مرة ."

(27/2،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں