بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سلام کرنے والے کا جواب دینے کے بجائے سلام کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہے، اور وہی شخص جس پر سلام کیا گیا وہ جواب میں بھی السلام علیکم کہے، تو کیا حکم ہے ؟ اس شخص کا جس پر سلام کا جواب دینا آتا ہے کیا یہ جواب لوٹانا ضروری اور واجب نہیں؟ یا یہ شخص اپنے آپ کو سلام میں پہل کرنے والا شمار کرتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  سلام میں پہل کرنے والاحدیث شریف میں موجود فضیلت (یعنی لوگوں میں اللہ سے سب سے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے) کا مستحق ہوجاتا ہے، سلام کرنے کے بعد واجب یہ ہے کہ جواب  "وَعَلَیکُمُ السَّلَام وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَكَاتُه" کے الفاظ سے دیا جائے، کیوں کہ سلام کرنا سنّت ہے تاہم اس سلام کاجواب دینا مسلمان کا حق ہونے کی وجہ سے واجب ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب سلام کرنے والے نے سلام کرلیا، اور سلام کا جواب دینے والے نے بجائے جواب دینے کے دوبارہ سلام کیا تو یہ  جواب سمجھاجائےگا یا نہیں اس میں اختلاف ہے، اس لیے "وَعَلَیکُمُ السَّلَام"سے ہی جواب دینا بہتر ہے؛ تاکہ اختلاف باقی نہ رہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وإذا تلاقى رجلان وسلم كل واحد منهما على صاحبه دفعة واحدة، أو أحدهما بعد الآخر، فقال القاضي حسين وصاحبه أبو سعيد المتولي: يصير كل واحد منهما مبتدئا بالسلام، فيجب على كل واحد أن يرد على صاحبه. وقال الشاشي: فيه نظر، فإن هذا اللفظ يصلح للجواب، فإذا كان أحدهما بعد الآخر كان جوابا، وإن كانا دفعة لم يكن جوابا. قال: وهو الصواب".

(کتاب الآداب، باب السلام، ج:7، ص:2944، ط:دارالفکر)

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، و المجيب كذلك يرد، ولاينبغي أن يزاد على البركات شيء، قال ابن عباس - رضي الله عنهما - لكل شيء منتهى ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط. "

(كتاب الكراهية، الباب السابع فى السلام، ج:5، ص:325، ط:مكتبه رشيديه)

فتاویٰ شامی (رد ّالمحتار) میں ہے:

"قال في شرح الشرعة: واعلم أنهم قالوا إن السلام سنة واستماعه مستحب، وجوابه أي رده فرض كفاية، وإسماع رده واجب بحيث لو لم يسمعه لا يسقط هذا الفرض عن السامع حتى قيل لو كان المسلم أصم يجب على الراد أن يحرك شفتيه ويريه بحيث لو لم يكن أصم لسمعه اهـ".

(كتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمسّ، باب الاستبراء وغیرہ، ج:6، ص:413، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں