بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سیاسی پارٹی کے لیے مسجد و مدرسے کے اوپر جھنڈا لگانے کا کیا حکم ہے؟


سوال

کسی بھی سیاسی پارٹی بالخصوص دینی جماعتوں کے لیے مسجد و مدرسے کے اوپر جھنڈا لگانے کا کیا حکم ہے؟خواہ الیکشن کی کیمپین چلانے کے لیے یا ویسے عقیدت میں۔

جواب

جواب سے قبل جھنڈے کی شرعی حیثیت  کاجاننا ضروری ہے تاکہ اس کے استعمال کاحکم معلوم ہوسکے۔
جھنڈے کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ یہ بذات خود کوئی مقصودی چیز نہیں  بلکہ  محض  ایک   علامت اور نشانی  ہے،آپ علیہ السلام سے مختلف مواقع پر مختلف جھنڈوں کا استعمال ملتا ہے،مثلا جنگ میں کبھی بالکل سیاہ جھنڈا بھی استعمال کیاتاکہ لشکر کو جمع ہونے میں آسانی ہو، کیونکہ دن کی روشنی میں سیاہ جھنڈا آسانی سے نظر آجاتا ہے،اسی طرح سفید جھنڈے کا بھی استعمال کیا، کیونکہ یہ رنگ آپ علیہ السلام کو پسند تھا،اس کے علاوہ سرخ اور پیلے رنگ کا بھی ذکر ملتا ہے، مخلوط سیاہ اور سفید جھنڈے کا بھی ذکر آتا ہے۔
علامہ واقدی نے مغازی میں لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ اوس کا سبز جھنڈا تھا اور قبیلہ خزرج کا سرخ تھا،اسلام کے بعد آپ علیہ السلام نے دونوں جھنڈوں کو اپنی حالت میں برقرار رکھا، اور مہاجرین کے سیاہ اور سفید جھنڈے تھے۔

اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کاجواب یہ ہے کہ مساجد  کی وضع خاص اللہ تعالی کی عبادت کے لیے ہوتی ہے، ہر وہ عمل جو خالص عبادت نہ ہو،یا عبادت کے عنصر سے خالی ہو،وہ مسجد میں جائز نہیں ہے؛ چنانچہ مساجد پر  سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے  لگانے میں  اولاً عبادت کا پہلو نہیں ہے، دوسرا یہ  کہ فی زمانہ   نمازیوں کے لیے انتشار کا باعث بھی  بن سکتا ہے،تیسرا یہ کہ مسجد اللہ کی ہے، کسی خاص پارٹی کے لیے نہیں  بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے، اس لیے مساجد پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں سے احتراز کیا جائے۔

البتہ مدرسے پر    جھنڈا لگانے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر   مدرسہ  کو کسی سیاسی جماعت کی  حمایت کی حاصل ہو یا ضرورت ہو  تو اس طرح کی ضرورت کے لئے مدرسہ  کی  حدود سے باہر پہچان کے لئے  جھنڈا لگانے کی گنجائش ہے، لیکن  چونکہ مدرسہ   تعلیمی وقف ادارہ ہوتا ہے  اس لئے الیکشن کمپین کے طور پر  وہاں جھنڈا لگانا درست نہیں ہے۔

مغازی الواقدی میں ہے:

"وكانت رايات الأوس والخزرج في الجاهلية خضر وحمر، فلما كان الإسلام أقروها على ما كانت عليه، ‌وكانت ‌رايات ‌المهاجرين سود والألوية بيض"

(غزوہ حنین، ج:3،ص:896، ط:دار الاعلمی)

اسد الغابۃ میں ہے:

"مزيدة العصرية روى هود بن عبد الله بن سعد، عن جدته مزيدة العصرية، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌عقد ‌رايات ‌الأنصار وجعلها صفرا۔"

(حرف المیم ،مزیدۃ العصریۃ، ج:7،ص:256،ط:دار الکتب العلمیۃ)

التیسیر بشرح الجامع الصغیر میں ہے:

"( كان رايته) تسمى العقاب، وكانت (سوداء) أي: غالب لونها أسود بحيث ترى من بعيد سوداء، لا أن لونها أسود خالص، (ولواءه أبيض) قال ابن القيم: وربما جعل فيه السواد، والراية: العلم الكبير، واللواء: العلم الصغير".

(الشمائل الشریفۃ، ج:2،ص:260،ط:مکتبۃ الامام الشافعی)

بذل المجہود میں ہے:

"(قال) يونس بن عبيد: (بعثني محمد بن القاسم إلى البراء بن عازب يسأله عن راية رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ما كانت؟) أي: يسأل عن لونها وكيفيتها، ومن أي ثوب كانت؟ (فقال) البراء بن عازب: (كانت) رايته (سوداء) أي: ما غالب لونه سواد، (مربعة من نمرة) بفتح فكسر، وهي بردة من صوف، يلبسها الأعراب، فيها تخطيط من سواد وبياض، ولذلك سميت نمرة تشبيها بالنمر".

( کتاب الجہاد،باب في  الرايات،ج:9،ص:174،ط:  مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"وأن المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحدا ۔قوله تعالى: (وأن المساجد لله) أن بالفتح، قيل: هو مردود إلى قوله تعالى: قل أوحي إلي أي قل أوحي إلي أن المساجد لله. وقال الخليل: أي ولأن المساجد لله. والمراد البيوت التي تبنيها أهل الملل للعبادة. وقال سعيد بن جبير: قالت الجن كيف لنا أن نأتي المساجد ونشهد معك الصلاة ونحن ناءون عنك؟ فنزلت: وأن المساجد لله أي بنيت لذكر الله وطاعته".

(سورۃ الجن، رقم الآیة :18، ج:9، ص:20، ط:دارالفکر)

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائرمیں ہے:

"قال المصنف في البحر معللا له:؛ لأن المسجد ليس ملكا لأحد وعزاه إلى النهاية ثم قال: ومن هنا يعلم جهل بعض مدرسي زماننا من منعهم من يدرس في مسجد تقرر في تدريسه أو كراهتهم لذلك زاعمين الاختصاص به دون غيرهم وهذا جهل عظيم ولا يبعد أن تكون كبيرة قال الله تعالى: {وأن المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحدا} [الجن: 18] فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة أو اعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم أو تعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد حتى لو كان للمدرس موضع من المسجد يدرس فيه فسبقه غيره أنه ليس له إزعاجه وإقامته منه فقد قال الإمام الزاهدي في القنية معزيا إلى فتاوى العصر: له في المسجد موضع معين يواظب عليه وقد شغله غيره قال الأوزاعي: له أن يزعجه وليس ذلك عندنا."

( الفن الثالث من الأشباه والنظائر، وهو فن الجمع والفرق، القول في أحكام المسجد،  ج:4، ش:63، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں