بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رجب 1446ھ 18 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

سیاہ خضاب لگانا گناہ کبیرہ ہے یا صغیرہ؟


سوال

سیاہ خضاب لگانا جو قول مختار کے مطابق مکروہ تحریمی ہے، گناہ صغیرہ ہوگا یا گناہ کبیرہ؛جب کہ آج کل خواص بھی اس میں مبتلا ہیں۔براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ داڑھی یا سر کے بال اگر سفید ہوجائیں،خواہ کسی بھی عمر  میں سفید ہوجائیں،تو خالص  سیاہ رنگ کے علاوہ کوئی بھی رنگ لگاسکتے ہیں،یعنی سرخ رنگ،یا ہلکا/تیز کھتی رنگ لگاناجائز ہے،البتہ خالص سیاہ رنگ کا خضاب لگاناجائز نہیں ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعید آئی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گےجیسے کبوتر کا پوٹہ،اُن لوگوں کوجنت کی خوشبوبھی نصیب نہیں ہوگی،لہذا     صورت ِ مسئولہ میں  بلا عذر شرعی بالوں کو سیاہ خضاب لگانا ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : "يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة."

(کتاب الترجل , باب ما جاء فی خضاب السواد  جلد 6 ص: 272 ط: دار الرسالة العالمیة)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»."

(کتاب اللباس و الزینة , باب فی صبغ الشعر و تغییر الشیب جلد 3 ص: 1663 ط: داراحیاء التراث العربي)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  فتحِ مکہ کے دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد "ابوقحافہ"  رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں لائے گئے، ان کے سر اور داڑھی کا بال بالکل سفید ہوچکے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اس (سفید رنگ) کو کسی خضاب سے بدل (کر رنگ) دو، لیکن کالے رنگ سے اجتناب کیجیو!

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه."

(کتاب الکراهیة , الباب العشرون فی الزینة و اتخاذ الخادم للخدمة جلد 5 ص: 359 ط: دارالفکر)

روح المعانی میں ہے:

"وقال شيخ الإسلام ‌البارزي: التحقيق أن الكبيرة كل ذنب قرن به وعيد أو حد أو لعن بنص كتاب أو سنة، أو علم أن مفسدته كمفسدة ما قرن به وعيد أو حد أو لعن أو أكثر من مفسدته، أو أشعر بتهاون مرتكبه في دينه إشعار أصغر الكبائر المنصوص عليها بذلك."

(جلد 3 ص: 18 ط: دارالکتب العلمیة)

امداد الفتاوی میں ہے:

اب نفس مسئلہ کے متعلق عرض ہے کہ احادیث نہی قولی ہیں اور روایات اباحت فعلی ہیں ، اور قولی راجح ہوتی ہے فعلی پر پھر احادیث قولیہ مرفوع ہیں اور احادیث فعلیہ موقوف  یا اس سے بھی ادنی پھر احادیث نہی سندا قوی ہیں اور روایات اباحت قوت میں ان سے کم ، پھر نہی  میں لفظ سواد حقیقتا کے لیے متعین ہے اور اباحت میں محتمل مجاز کو ، کیوں کہ ادنی سواد کو بھی سواد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، چناں چہ صحیح بخاری مناقب حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے باب میں کان مخضوبا بالوسمۃ آیا ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں کہ وسمہ خالصۃ تھا اور وسمہ مخلوط بالحناء وغیرہ کے لیے سواد لازم نہیں بلکہ اختلاف  ترکیب و تقدیم و تاخیر سے مختلف الوان پیدا ہوسکتے ہیں ، پس سواد محض کا دعوی بے دلیل ہے ، اور اگر کسی نے سواد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اس کا یہی محمل ہوگا ، پھر خود بخاری جلد اول باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ الی المدینۃ کی ایک حدیث میں حناء و کتم سے جو اکثر روایات میں وارد ہے سرخ رنگ پیدا ہونا مصرح ہے وہ حدیث یہ ہے:

«قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فكان أسن أصحابه أبو بكر، فغلفها بالحناء والكتم حتى قنأ لونها»

پس ان وجوہ سے روایات اباحت معارض نہیں ہوسکتی احادیث نہی کی اور بعد تسلیم تعارض محرم کو ترجیح ہوتی ہے مبیح پر ، پس قول راجح پر روایہ و درایۃ سواد خالص میں بجز مستثنی صورتوں کے اصلا گنجائش نہیں۔

(بالوں کے حلق و قصر و خضاب اور ختنہ وغیرہ کے احکام جلد ۴ ص:۲۱۹ ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

سوال:"سر کے بال جوانی میں سفید ہوجائیں تو سیاہ خضاب لگانا کیسا ہے؟

الجواب:سیاہ خضاب لگانا سخت گناہ ہے احادیث میں اس پر وعید آئی ہے۔۔الخ"

(کتاب الحظر و الاباحۃ جلد ۱۰ ص:۱۱۷ ط:دارالاشاعت)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں