بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیاہ خضاب لگانا


سوال

 داڑھی سیاہ خضاب دینا بغیر عذر کے کیسا ہے؟

جواب

خالص کالے رنگ کا خضاب لگانا ناجائز اور گناہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، چناں چہ ابوداودشریف کی روایت میں ہے:

’’حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوشبوبھی نصیب نہ ہوگی‘‘۔ 

البتہ  حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے فقہاء نے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی ہے، اس کے علاوہ حالات میں خالص سیاہ خضاب لگانا جائز نہیں ہے؛ لہذا سیاہ رنگ کے خضاب کااستعمال درست نہیں۔ سیاہ رنگ کے علاوہ کسی بھی رنگ (مثلاً سرخ، یاسیاہی مائل رنگ) کاخضاب لگاسکتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے کہ فتح  مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے گئے اس حال میں کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسے (سفید بالوں کو) کسی چیز (خضاب وغیرہ) سے تبدیل کردو، البتہ کالے رنگ سے اجتناب کرنا۔

"عن جابر قال: أتي النبي صلی اللہ علیه وسلم بأبي قحافة یوم فتح مکة ورأسه ولحیته کالثغامة بیاضاً، فقال النبي صلی اللہ علیه وسلم : غیروا هذا بشيء، و اجتنبوا السواد".

(الصحيح لمسلم، کتاب اللباس والزینة، باب استحباب خضاب الشیب بصفرة أو حمرة وتحریمه بالسواد، النسخة الهندیة ۲/ ۱۹۹، بیت الأفکار رقم: ۲۱۰۲)

"والأمر للوجوب، وترك الواجب یوجب الوعید. وروی أبو داؤد، والنسائي عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال:« یکون قوم في آخر الزمان یخضبون بهذا السواد کحواصل الحمام لایریحون رائحة الجنة»".

(سنن النسائي، کتاب الزینة من السنن، النهي عن الخضاب بالسواد، النسخة الهندیة ۲/ ۲۳۶، دارالسلام رقم: ۵۰۷۸)

"وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ لیکون أهیب في عین العدو فهو محمود منه، اتفق علیه المشائخ. ومن فعل ذلك لیزید نفسه للنساء أو لحبب نفسه إلیهن فذلك مکروه، و علیه عامة المشائخ. وبعضهم جوز ذلك من غیر کراهة".

(الفتاوى الهندية ۵/۳۵۹)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204200529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں