بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کو زکوٰۃ دینا


سوال

میں نے گریس کا کاروبار کیا تھا، اس میں مجھے نقصان ہوگیا، 25 لاکھ قرضہ میرے اوپر آگیا، بینک سے دو لاکھ قرضہ لیا  وہ بھی ادا نہیں کرسکا، اب قرض دار گھر آکر مطالبہ کررہے ہیں، دھمکی بھی دی ہے کہ آپ کے خلاف  FIR کٹواکر بند کرائیں گے، ایک مرتبہ بہت پریشان ہوکر میں نے خودکشی کا بھی ارادہ کیا، پھر ایک آدمی نے مجھے کہا کہ آپ فتویٰ لے آؤ کہ آپ زکوٰۃ لے سکتے ہو یا نہیں؟ ہم لوگ” سید“  ہیں، کیا میں زکوٰۃ لے سکتا ہوں؟ میں بہت پریشان ہوں، میرا گزر بسر مشکل  سے ہوتا ہے، میری ملکیت میں نہ سونا چاندی ہے، نہ نقد رقم، صرف ایک موٹر سائیکل  ہے، جس کی قیمت  دس سے بارہ ہزار ہے، اس کے علاوہ صرف کپڑے ہیں، جس مکان میں رہتا ہوں وہ والدین کا ہے۔

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل ”سیّد“ خاندان سے ہے، اور سادات کے لیے  زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے،اور  زکوٰۃ کی رقم سے سید کا تعاون کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ؛  اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

’’یہ صدقات  (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ 

لہذاسائل کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے، سائل اگر غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں کو چاہیے کہ وہ اس  کی زکات اور صدقات واجبہ کے علاوہ  نفلی صدقات وعطیات وغیرہ سے  امداد  کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں ، یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہےكہ :”رسولِ اقدس ﷺ کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم ﷺ کے حق کی حفاظت کرو“۔

صحيح مسلم ميں هے:

حدثنا هارون بن معروف ... قالا: لعبد المطلب بن ربيعة، وللفضل بن عباس، ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم وساق الحديث بنحو حديث مالك، وقال فيه ... ثم قال لنا «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد» 

 (2 / 754،باب ترك استعمال آل النبي على الصدقة، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

صحيح البخاری میں ہے:

"أخبرني عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا خالد، حدثنا شعبة، عن واقد، قال: سمعت أبي يحدث، عن ابن عمر، عن أبي بكر رضي الله عنهم، قال: «ارقبوا محمدا صلى الله عليه وسلم في أهل بيته»."

 (5 / 20، باب مناقب قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ط: دار طوق النجاة)

البحر الرائق ميں هے:  

"(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»". 

(2/ 265، باب مصرف الزكاة، ط: دارالكتاب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں