بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھ سال کی عمر میں دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی


سوال

میرے ایک دوست نے مجھے فون کیا وہ اپنی سالی کا رشتہ اپنے چھوٹے بھائی سے کروانا چاہتاہے،  لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسکی بیوی اپنے بیٹے کو دودھ پلا رہی تھی دوپہر کے وقت،  جس بھائی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے وہ جب چھ سال کا تھا تو  اس کو اس کی بیوی  نے غلطی سے  دودھ پلادیا تھا،  کیونکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتے پلاتے  سو گئی تھی اور اسکا دیور جس کی عمر چھ سال کی تھی اس نے بھی اپنی بھابھی کا دودھ پی لیا تھا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے دوست کے بھائی اور سالی کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  مدتِ  رضاعت ( جب تک بچہ کی عمر دو سال مکمل نہ ہوجائے) کے بعد  کسی خاتون کا دودھ  پینا حرام ہے،اور مدت رضاعت کے بعد  دودھ پینے سے حرمت رضاعت بھی ثابت نہیں ہوتی۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کے بھائی نے اپنی بھابھی کا دودھ چوں کہ چھ سال کی عمر میں پیا ہے، تو اس سے رضاعت ثابت نہیں ہوئی،  لہذا مذکورہ شخص کے بھائی کا نکاح اس کی سالی کے ساتھ جائز ہے۔

المجموع شرح المہذب میں ہے :

"ويشترط في الارضاع شرطان :(أحدهما) خمس رضعات لحديث عائشة الذي سيأتي.وفي حديث سهلة " أرضعيه خمس رضعات يحرم بهن.

الشرط الثاني أن يكون في الحولين، فإن كان خارجها عنهما لم يحرم كما سيأتي". (18 / 210)

وفیہ ایضا:

"انتزع الفقهاء من قوله تعالى: (والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين) أن الرضاعة المحرمة - بكسر الراء المشددة - الجارية مجرى النسب إنما هن ماكان في الحولين، لانه بانقضاء الحولين تمت الرضاعة، ولا رضاعة بعد الحولين معتبرة". (18/212)

البناية شرح الهدايةمیں ہے:

"م: (قال: وإذا مضت مدة الرضاع لم يتعلق بالرضاع تحريم لقوله صلى الله عليه وسلم) ش: أي لقول النبي صلى الله عليه وسلم م: «لا رضاع بعد الفصال» ش: هذا الحديث رواه الطبراني في معجمه بإسناده إلى علي - رضي الله تعالى عنه -، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا رضاع بعد فصال ولا يتم بعد حلم» رواه عبد الرزاق مرفوعا، ثم رواه موقوفا. وقال العقيلي في كتابه: هو الصواب، ورواه الطيالسي في " مسنده " من حديث جابر نحوه. وفي إسناده حزام بن عثمان، وأعله ابن عدي به بعد أن رواه، ونقل عن الشافعي وابن معين - رحمهما الله تعالى - أنهما قالا: الرواية عن حزام حرام.

م: (ولأن الحرمة باعتبار النشر وذلك) ش: أي النشر م: (في المدة) ش: لأن الحرمة في الرضاعة باعتبار الصغير لا يتغذى بغيره م: (إذ الكبير لا يتربى به) ش: أي باللبن عادة، بوجوب تغذيته بغيره

م: (ولا يعتبر الفطام قبل المدة) ش: يعني إذا فطم لا يعتبر م: (إلا في رواية عن أبي حنيفة) ش: رواه الحسن عنه م: (إذا استغنى عنه) ش: أي عن اللبن.

م: (ووجهه) ش: أي وجه ما روي عن أبي حنيفة م: (انقطاع النشر بتغير الغذاء) ش: أي انقطاع النشر الصالح باللبن، يعني أن نشر الصبي باللبن ينقطع بعد استغنائه بالطعام، لتغير غذائه؛ لأن غذاءه كان لبنا فصار طعاما، فلا تثبت الحرمة برضاع اللبن بعد ذلك، و لهذا قال عليه السلام في حديث أبي هريرة: «الرضاع ما فتق الأمعاء، وكان ذلك قبل الطعام» وفي " الواقعات ": الفتوى على ظاهر الرواية، لايعتبر الطعام قبل المدة.

[[يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب]]

م: (وهل يباح الإرضاع بعد المدة، قد قيل: لا يباح؛ لأن إباحته ضرورية) ش: أي لأن إباحة اللبن في المدة لضرورة الولد، والثابت بالضرورة يتقدر بقدر الضرورة، فلايباح بعد المدة لزوال الضرورة م: (لكونه جزء الآدمي) ش: أي لكون اللبن جزء الآدمي، والانتفاع به حرام، لأن الآدمي وجزءه لا يجوز أن يكون مبتذلا مهانا، وسواء كان الإرضاع من الأم، أو من الأجنبية."

( كتاب الرضاع، ٥ / ٢٦٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں