بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیٹیاں اور تالیاں بجانے کا حکم


سوال

1- تالی  بجانے کا کیا حکم ہے؟

2- سیٹی بجانا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

1- تالیاں بجانا لہو لعب میں داخل ہے، شریعتِ مقدسہ نے عورتوں کو (جب کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں اور کوئی ضرورت پیش آئے) اس بات کی اجازت دی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر اپنا نماز میں مشغول ومصروف ہونا ظاہر کریں، لیکن ہاتھ کو ہاتھ پر مارنے کی صورت یہ تعلیم فرمائی کہ ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے ہاتھ کی پشت پر ماریں؛ کیوں کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر مار کر بجانا لہو لعب کی صورت اور رقاصوں (فساق وفجار)  کا فعل ہے، نیز خوشی کے مواقع پر اظہارِ مسرت کے لیے تقریبات اور محافل میں تالیاں بجانا کفارِ یورپ کا خاص طریقہ ہے، لہذا تالیاں بجانے سے باز رہنا چاہیے، ایک تو اس وجہ سے کہ یہ لہو لعب میں داخل ہے، دوسرا اس وجہ سے کہ اس میں کفارِ یورپ سے مشابہت لازم آتی ہے۔

(ماخوذ از: کفایت المفتی، کتاب الحظر والاباحہ، تالیاں بجانا لہو لعب اور کفار کی مشابہت ہے، ج: 9، ص: 116، ط: دار الاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وكره كل لهو) أي كل لعب وعبث فالثلاثة بمعنى واحد كما في شرح التأويلات والإطلاق ‌شامل ‌لنفس ‌الفعل، واستماعه كالرقص والسخرية والتصفيق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنها كلها مكروهة لأنها زي الكفار، واستماع ضرب الدف والمزمار وغير ذلك حرام وإن سمع بغتة يكون معذورا ويجب أن يجتهد أن لا يسمع قهستاني."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 395، ط: سعيد)

2-سیٹیاں بجانا لہو لعب میں داخل ہے، اور اس میں کفار،  فساق و فجار سے مشابہت ہے، اس لیے بلا ضرورت سیٹیاں بجانا درست نہیں ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعنه، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «‌من ‌تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (‌من ‌تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير."

(كتاب اللباس، ج: 7، ص: 2782، ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں