بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استحاضہ کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں


سوال

میں پہلے روزے میں حیض سے پاک ہوگئی، پھر میں نے روزے رکھے، اب استحاضہ کا خون جاری ہے، اس میں روزہ درست ہے؟

جواب

’’استحاضہ‘‘  بیماری کے خون کو کہا جاتا ہے، اور استحاضہ کے خون کا حکم ماہ واری اور نفاس کے خون کا نہیں ہے،  لہذا جس عورت کو استحاضہ کا مسلسل خون آرہا ہو تو  اس بیماری سے پہلے اس کی جتنی  ماہ واری کے ایام کی  عادت تھی ان دنوں میں نماز، روزہ وغیرہ چھوڑدے  اور جب وہ عادت کے دن گزر جائیں تو خون دھو کر غسل کرلے اور اس کے بعد نمازیں وغیرہ پڑھنا شروع کردے ، اگر چہ خون بہتا رہے ، البتہ اگر خون بالکل نہ رکتا ہو کہ پاک ہوکر وقتی فرض ادا کرسکتے تو ہر نماز کے وقت  کے لیے ایک وضو کرلے اور  دوسری نماز کا وقت آنے تک اسی وضو سے جتنی چاہے نمازیں خواہ فرض ہو یا نفل پڑھ سکتی ہے، اسی طرح تلاوت،ذکر اذکار، طواف وغیرہ کر سکتی ہے۔ ہاں اگر وضو اس خون والے عذر کے علاوہ کسی اور وجہ سے ٹوٹا ہوتو دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔

نیز  عادت کے ایام کے علاوہ بقیہ دنوں میں مستحاضہ عورت  رمضان کے روزے  رکھے گی، اسی طرح قضا روزے اور دوسری عبادات بھی معمول کے مطابق کرسکتی ہے۔

استحاضہ کے خون سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، نیز استحاضہ کے خون کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔

"ودم الاستحاضة حکمه کرعاف دائم وقتًا کاملاً لایمنع صومًا وصلاةً ولو نفلاً وجماعَا؛ لحدیث: توضئي وصلي وإن قطر الدم علی الحصیر". (الدرالمختارعلی صدر ردالمحتار: ج؍۱، ص؍۲۹۸، باب الحیض)

و في الشامية:

’’(قَوْلُهُ: لَا يَمْنَعُ صَوْمًا إلَخْ) أَيْ وَلَا قِرَاءَةً وَمَسَّ مُصْحَفٍ وَدُخُولَ مَسْجِدٍ، وَكَذَا لَا تُمْنَعُ عَنْ الطَّوَافِ إذَا أَمِنَتْ مِنْ اللَّوْثِ، قُهُسْتَانِيٌّ عَنْ الْخِزَانَةِ ط‘‘.(١/ ٢٩٨)
"والمستحاضة ومن به سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لایرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاة فیصلون بذلك الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض والنوافل". (الهدایة على صدر البنایة:ج؍۱،ص؍۴۷۹،باب الحیض) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں