بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ستاروں کے ذریعے مستقبل کے حالات جاننے کا حکم


سوال

 ستاروں کاحال پڑھنا اور اس کے  حوالے سے اپنے مستقبل کا حال احوال جاننا یا کسی دوسرے کا اس مسئلہ کو جاننا ، کیسا عمل ہے؟ 

جواب

ستاروں کی چال سے مستقبل کے حالات جاننے  کی کوشش کرنا، اور  ان باتوں پر یقین کرنا ناجائز و حرام ہے،   اس پہلو سے ستاروں کا علم سیکھنے کو  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسند فرمایا ہے،   ستاروں کی تخلیق کے من جملہ  فوائد میں سے اللہ رب العزت نے ان کے ذریعے سمت، راستے اور اوقات کا جاننا بیان فرمایا ہے؛  لہٰذ ا سمت، راستے، اوقات وغیرہ  جاننے کے لیے تو ستاروں کے علوم سیکھ   سکتے ہیں۔  نیز ان کی چال سے ظنی اور تخمینی طور پر موسم کا اندازہ  کیا جاسکتاہے، جیساکہ خاص اوقات اور کیفیات سے بادلوں کے جمع ہونے سے بارش برسنے پر ممکنہ استدلال کیا جاتاہے، لیکن قطعی اور یقینی طور پر دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں ستاروں کی چال دیکھ کر مستقبل کے حوالے سے  پیش گوئی کرنا، یا کسی کے دعوے کو تسلیم کرنا، یا ایسی باتوں میں دل چسپی لینا  ناجائز ہے ۔

 سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ". (سنن ابن ماجه، كِتَابُ الْأَدَبِ، بَابُ تَعَلُّمِ النُّجُومِ، رقم: ٣٧٤٩)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا ، اس نے سحر (جادو ) کا ایک حصہ حاصل کرلیا ، اب جتنا زیادہ حاصل کرے گا گویا اُتنا ہی زیادہ جادو حاصل کرے گا‘‘۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 43)

"وحراما، وهو علم الفلسفة والشعبذة والتنجيم والرمل وعلوم الطبائعيين والسحر والكهانة.  

(قوله: والكهانة) وهي تعاطي الخبر عن الكائنات في المستقبل وادعاء معرفة الأسرار. قال في نهاية الحديث: وقد كان في العرب كهنة كشق وسطيح، فمنهم من كان يزعم أن له تابعا يلقي إليه الأخبار عن الكائنات، ومنهم أنه يعرف الأمور بمقدمات يستدل بها على موافقها من كلام من يسأله أو حاله أو فعله وهذا يخصونه باسم العراف كالمدعي معرفة المسروق ونحوه، وحديث " من أتى كاهنا " يشمل العراف والمنجم. والعرب تسمي كل من يتعاطى علما دقيقا كاهنا، ومنهم من يسمي المنجم والطبيب كاهنا اهـ ابن عبد الرزاق.

(مقدمة الكتاب ، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں