بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سری نمازوں میں سری قراءت کی وجہ


سوال

ظہر اور عصر کی نماز میں قراءت آواز سے کیوں نہیں ہوتی؟

جواب

ظہر اور عصر کی نماز میں قراءت سری طور پر کی جانے کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی ہے، البتہ پس منظر اس کا یہ ہے کہ  ابتداء اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نمازوں میں جہری قراءت فرماتے تھے تو مشرکینِ مکہ   قرآن کی آواز سن کر آجاتے تھے اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور تنگ کرنے کے لیے خوب شور مچاتے، زور زور سے اشعار پڑھتے، الٹی سیدھی بکواس کرتے اور گالم گلوچ کرتے تھے، اور وہ اپنے لوگوں کو ایسا کرنے کی باقاعدہ ترغیب دیتے تھے ، تاکہ جب قرآن پڑھا جائے تو وہ لوگ شور شرابا کر کے غالب آجائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوجائیں، کیوں کہ قرآن میں توحید کا بیان ہوتا تھا، جس کا سننا ان لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا تھا، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾  [الإسراء: 110] اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ  آپ نہ تو ساری نمازوں میں جہری قراءت کریں اور نہ ہی ساری نمازوں میں سری قراءت کریں، بلکہ درمیانی صورت اختیار کریں یعنی اندھیرے میں پڑھی جانے والی نمازوں (فجر، مغرب اور عشاء) میں جہری قراءت کریں، جب کہ دن کی روشنی میں پڑھی جانے والی نمازوں (ظہر اور عصر) میں سری قراءت کریں، لہٰذا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نمازوں میں سری قراءت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ ان اوقات میں مشرکین تکلیف پہنچانے کے لیے بالکل تیار ہوتے تھے، جب کہ مغرب، عشاء اور فجر میں جہری قراءت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ مغرب میں وہ لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوتے تھے، اور عشاء و فجر میں وہ لوگ سو رہے ہوتے تھے، بعد میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قوت اور شان و شوکت عطا کردی اور کفار کی یہ جرأت نہ  رہی، لیکن مذکورہ حکم باقی رہا اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرمانے تک اسی پر عمل پیرا رہے اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کا یہی عمل متوارث رہا، لہٰذا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مواظبت کے سبب فقہاء نے امام کے لیے فجر، مغرب اور عشاء میں جہری قراءت اور ظہر و عصر میں سری قراءت کرنے کو نماز کے واجبات میں سے شمار کیا ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ميں ہے:

"والأصل في الجهر والإسرار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر بالقراءة في الصلوات كلها في الإبتداء، وكان المشركون يؤذونه، ويقولون لأتباعم: إذا سمعتموه يقرأ فارفعوا أصواتكم بالأشعار والأراجيز وقابلوه بكلام اللغو، حتى تغلبوه فيسكت، ويسبون من أنزل القرآن، ومن أنزل عليه، فأنزل الله تعالى: ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا﴾ أي لا تجهر بصلاتك كلها، ولا تخافت بها كلها، وابتغ بين ذلك سبيلاً: بأن تجهر بصلاة الليل، وتخافت بصلاة النهار، فكان بعد ذلك يخافت في صلاة الظهر والعصر؛ لاستعدادهم بالإيذاء فيهما، ويجهر في المغرب؛ لاشتغالهم بالأكل، وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم، وفي الجمعة والعيدين؛ لأنه أقامهما بالمدينة، وما كان للكفار قوة. (وقوله: وفي العشاء والفجر؛ لرقادهم) وجهه في الفجر ظاهر، وفي العشاء أن السنة تأخيرها إلى ثلث الليل، وهذا إنما يظهر في زمن الشتاء، أما في غيره فالعذر فيها كالمغرب فيما يظهر".

(كتاب الصلاة، فصل في بيان واجب الصلاة، ص:253، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں