بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری کام کے لیے رشوت دینا


سوال

(1) ایک شخص ایک سرکاری ادرے میں ملازمت کرتا تھا جس کی وجہ سے وہاں اس کے مختلف ادروں میں تعلقات ہیں، اب لوگ اس سے درخواست کرتے ہیں کہ ہم آپ کو اخراجات ادا کرتے ہیں آپ جا کر ہمارا کام کروا آئیں، (جانا 300 کلو میٹر دور سے ہوتا ہے)

(2) اگر لوگ اپنے جائز کام کے لیے خود جائیں تو ان کو مشکلات بھی زیادہ ہوتی ہیں، اخراجات بھی زیادہ اور کام ہونے کی بھی گارنٹی نہیں ہوتی۔

(3) اگروہ کسی ایک بندے سے اخراجات لے کر جاتا ہے تو اسے اس میں بچت نہیں ہوتی۔اگر وہ مختلف لوگوں کے کام لے کرجائے اور سب سے اخراجات لے تو کیسا ہے؟

(4) وہ شخص وہاں ان کے وکیل کے طور پر جاتا ہے؛ کیوں کہ وہاں جائے بغیر کام ممکن نہیں ہوتا یا بہت لیٹ ہوتا ہے۔اور لوگ خصوصاً خواتین کا وہاں جانا مشکل ہے۔

(5) اگر ایسا جائز ہے پیسے کتنے لیے جا سکتے ہیں؟ آنے جانے کے مناسب اخراجات یا جو بھی اس شخص اور کام کروانے والے کے درمیان طے ہو جائیں؟

(6) وہ شخص وہاں جو کام کروا لیتا ہے وہ اپنے ذاتی تعلقات اور کوشش سے کراتا ہے ۔

(7)کسی کے جائز کام کے لیے وہاں پر ملازمین کو پیسے دینا یا کھانا وغیرہ کھلا دینا کیسا ہے؟کیوں کہ اس کے بغیر کا م نہیں ہوتا!

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو کام مذکورہ شخص کی ملازمت کی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہیں، لوگوں کے ایسے کام کے لیے جانا اور ان سے اس کی اجرت طے کر کے وصول کرنا جائز ہے، اس کی اجرت جو  دونوں کے مابین طے ہوجائے وہ جائز ہے، لوگوں کی مجبوری اور اپنے تعلقات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اور اپنے اخراجات سے کچھ اوپر لے کر ان کے کام کروادے تو اس میں حرج نہیں ۔

باقی رشوت کا لین دین صریح حدیث کی رو سے حرام ہے، اس لیے رشوت سے بچنا واجب ہے، البتہ اگر جائز سفارش اور دیگر جائز ذرائع سے کام کرنے کی پوری کوشش اور حق دار ہونے کے باوجود بھی رشوت دیے بغیر  کام نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اپنے ثابت شدہ حق کی وصولی کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہوگی، تاہم ایسی مجبوری کی صورت میں بھی اسے برا سمجھتے ہوئے استغفار کرنا چاہیے، نیز رشوت لینے والے کے لیے وہ مال حرام ہی ہوگا۔

جیساکہ فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: إذا خاف علي دينه) عبارة المجتبي: لمن خاف. وفيه ايضاً: دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه و ماله و لإستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ". ( شامي، ٦ / ٤٢٣، ط: سعيد) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں