بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف طلاق کا تذکرہ کرنے سے کیا حکم ہے؟


سوال

 میرا سوال نکاح سے پہلے طلاق معلّق کے متعلق ہے ۔ایک  دن میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ  پانچ ، چھ شادی کرلیجیے، جِس کے جواب میں  میں نے اپنے دوست کو کہا کہ اسلام میں چار شادیاں  ہی جائز  ہیں۔جِس پر  میرے دوست نے  مُجھ سے کہا  کہ ایک ہی وقت میں چار شادی  جائز ہیں،  لیکن ویسے تو آدمی پانچ، چھ شادی بھی کر سکتا ہے۔ جِس پر  میں نے  اپنے دوست کو کہا  کہ تمھارا کیا مطلب ہے  کہ طلاق دیتے جاؤ ۔بس  میں نے اتنا کہا اپنے دوست سے ۔

(۲) لیکن اگر میں اِس طرح کہتا اپنے دوست کو  کہ تمھارا کیا مطلب ہے نکاح کرتے جاؤ اور طلاق دیتے جاؤ ۔

مجھے ان دونوں صورتوں کے بارے میں جواب دے  دیجیے۔  واضح رہے کی میرا نیت اور مقصد صرف دوست سے پوچھنا اور اُس کو بس بتانا تھا  کہ پانچ چھ  شادی کے چکّر میں  طلاق دیتے جاؤ ،  طلاق کو معلّق کرنے کی نیت نہیں تھی میری،  اور ابھی میری شادی نہیں ہوئی ہے، کُچھ عرصہ بعد ہونے والی ہے،  آپ بتائیں میرے ان دونوں صورتوں کے الفاظ سے طلاق معلّق ہو گئی اور نکاح کرنے سے طلاق واقع ہوجائے گی کیا؟ 

مذکورہ مسئلہ میں نے ایک مفتی صاحب سے  پوچھا تو پوچھنے میں یہ بول دیا کہ  میں نے اپنے دوست کو کہا  کہ تمھارا کیا مطلب ہے نکاح کرتے جاؤ اور طلاق دیتے جاؤ ۔۔۔۔مطلب یہ ہے  کہ مسلئہ پوچھنے میں مُجھ سے غلطی ہو گئی  اور لفظِ نکاح کرتے جاؤ یہ زیاد ہ نِکل گیا ۔ پہلے مُجھے دونوں الفاظ میں شک تھا  کہ میں نے دوست کو کیا بولا،  لیکن جب  تھوڑا غور کیا اور جتنا یاد ہے  کہ میں نے اپنے دوست کو صِرف یہی کہا تھا، کہ تمہارا کیا مطلب ہے طلاق دیتے جاؤ۔

پوچھنے کا مطلب یہ ہے  کہ مفتیِ صاحب سے مسئلہ پوچھنے میں جو لفظِ نکاح کرتے جاؤ زیاد نِکل گیا اُس سے کوئی فرق پڑےگا یا نہیں؟  میں کسی بھی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہوں؟  مہربانی ہوگی دونوں کا جوابِ عيد سے پہلے مُجھے دے  دیجیے میں کافی زیاد ذہنی پریشان ہوں،  میری شادی ہونے والی ہے!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ کسی لڑکی سے آپ نکاح کریں گے تو اس کو  طلاق واقع نہیں ہوگی ۔جو الفاظ آپ نے ادا کیے ہیں وہ  طلاق  یا تعلیقِ طلاق کے الفاظ  نہیں ہیں۔

کفایت المفتی میں ہے :

"بغیر نسبت کے صرف ’’ لفظ طلاق‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟

(سوال)   زید کی والدہ و ساس کے درمیان ایک عرصے سے خانگی جھگڑے ہورہے تھے زید سخت بیمار ہے ایک روز زید کے برادر خورد نے زید کی والدہ سے کہا کہ اماں یہ جھگڑے ختم نہ ہوں گے ہم اور تم کہیں  چلیں، ان دونوں کو یہاں رہنے دو اور زید کا بھائی اپنی والدہ کو لے جانے لگا، زید نے کہا کہ تم نہ جاؤ میں اس جھگڑے کو ہی ختم کیے دیتا ہوں اور یہ کہہ کر کہا کہ میں نے طلاق دی، یہ الفاظ اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر کہے، پھر  اس کے بعد جوش میں آکر صرف طلاق طلاق طلاق پانچ چھ مرتبہ کہا، لیکن اپنی زوجہ کا نام ایک مرتبہ بھی نہیں لیا اور نہ اس سے مخاطب ہوکر کہا اور زید کا خیال بھی یہی تھا کہ صرف لفظ طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، زوجہ گھر میں موجود تھی، لیکن اس نے الفاظ مذکورہ نہیں سنے۔  

المستفتی  نمبر ۳۱۱ ۔۲۲ صفر ۱۳۵۳؁ھ م ۶ جون ۹۳۴!ء

(جواب ۳۵) زید کے  ان الفاظ میں جو سوال میں مذکور ہیں لفظ طلاق تو صریح ہے، لیکن اضافت الی الزوجہ صریح نہیں ہے، اس لیے اگر زید قسم کھاکر  یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے قول اور قسم کا اعتبار کرلیا جائے گا،  اور طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا-         محمد کفایت  اللہ کان اللہ  لہ"۔ (6/53،54دارالاشاعت)

رد المحتار میں ہے:

"لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه".

 (كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق،ج:3،ص:348،ط: سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں